
ملک کو ڈالر کے تاریخی بحران کا سامنا ہے۔درآمد کنندگان سے لے کر بیرون ملک جانے والے طلباء تک کو، مطلوبہ مقدار میں ڈالر حاصل کرنے کا کوئی طریقہ نظر نہیں آرہا۔صبا خان گزشتہ ایک ہفتے سے 5 ہزار ڈالر حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ملی۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بیرون ملک مطالعاتی دورے پر جانا ہے لیکن وہ (منی چینجرز)200 سے زائد دینے پر تیار نہیں ہیں۔
امریکی ڈالر کی تبدیلی کی شرح 225 روپےکے آس پاس تھی ۔ قیمت تقریباً ہر منی چینجر کے دفتر پر ظاہر تو کی جاتی تھی لیکن جب آپ ڈالر مانگتے ہیں تو وہ اسے دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔
سید عدنان علی نے ایک ایکسچینج کمپنی سے خالی ہاتھ نکلتے ہوئے بتایا کہ مجھے اپنی فیملی کے ساتھ ترکی جانے کے لیے10ہزار ڈالر کی ضرورت تھی،لیکن مجھے یہ کسی بھی کرنسی کی دکان سے نہیں مل سکے۔ان کا کہنا تھا کہ اب انہوں نے اپنے ایک دوست سے کرنسی کا بندوبست کرنے کےلیے کہا ہے ، امید ہے کہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔
امریکی ڈالر بلیک مارکیٹ میں عام طور پر اوپن مارکیٹ کے نرخوں سے 10 سے 15 روپے زیادہ میں دستیاب ہے، یا پھر
کچھ لوگ اپنے دوستوں، ڈرائیوروں یا ساتھیوں کو منی چینجر کے پاس الگ سے بھیجتے ہیں تاکہ وہ اپنے ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے 200 ڈالر دے دیں ۔دسمبر کے آغاز میں، مرکزی بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر مزید 784 ملین ڈالر کم ہوکر 6 اعشاریہ 7 ارب ڈالر کی خطرناک سطح پر آگئے، جو 2019ء کے بعد سب سے کم ہے۔
تیزی سے کم ہوتے ذخائر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے سخت پابندیوں نے مارکیٹ کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے جہاں لوگ اوپن مارکیٹ سے ڈالر لینے کے لیے دوڑ پڑے ہیں ۔
حکومت نےبیرون ملک ادائیگیوں کے ساتھ ساتھ تقریباً 300 پُرتعیش اشیاء کی درآمدات کو محدود کر تے ہوئے، منی چینجرز کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ جب کہ غیر ملکی کرنسی کی مقدا رکو بھی کم کر دیا جو ایک مسافر بیرون ملک لے جا سکتا ہے۔مارکیٹ پر نظر ڈالیں تو یہ بات بخوبی عیاں ہے کہ اسحاق ڈار کا ڈالر مارکیٹ میں لانے، درآمد کنندگان پر دباؤ ڈالنے، ایکسچینج کمپنیوں پر دباؤ ڈالنے اور ہنڈی کے کاروبار کے نتائج صفر ثابت ہو رہے ہیں۔
تاہم، فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کا دعویٰ ہے کہ منی چینجرز ملک میں شدید قلت کے باوجود بیرون ملک جانے والے مسافروں، طلباء اور مریضوں کو ڈالر فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان ہمیشہ سے درآمدات پر منحصر معیشت رہی ہے جو کہ تجارت میں توازن کے لیے 70 ارب ڈالر تک بڑھ گئی ہے اور برآمدات اس کا نصف بھی نہیں ہیں۔تاریخ میں کبھی درآمدی بل کو کم کرنے یا برآمدات بڑھا کر تجارت میں توازن پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔نتیجے کے طور پر ہم ایک تکنیکی ڈیفالٹ کا سامنا کر رہے ہیں جہاں ملک درآمدات کی مالی اعانت کے لیے کافی ڈالر نہ ہونے کی وجہ سے لیٹر آف کریڈٹ(بنیادی طور پر بینک، بینک کے صارف اور فائدہ اٹھانے والے کے درمیان مالیاتی معاہدہ ) کو ریٹائرنہیں کر سکتا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News