Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

ادب سے محبت کرنے والوں کی پناہ گاہ

Now Reading:

ادب سے محبت کرنے والوں کی پناہ گاہ

ادب میلے کے چوتھے ایڈیشن کا آغاز بہت دھوم دھام سے ہوا۔اس انتہائی متوقع تقریب نے ادب سے محبت کرنے والوں کو فریئر ہال کراچی کے خوبصورت ماحول میں اکٹھا کیا۔دو روزہ میلہ سیشنز سے بھرپور تھا۔ اس سال کے فیسٹیول کا تھیم ’کلائمیٹ چینج‘ تھا، جس کے افتتاحی سیشن میں شیری رحمان مہمان خصوصی تھیں۔

Advertisement

’کوسٹل اربن ریزیلینس کی ترقی کی جانب سفر ‘ کے نام سے طرف منعقد سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ماہر ماحولیات اور کلفٹن اربن فوریسٹ کے بانی مسعود لوہار نے موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے فوری کارروائی کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کا ماحولیاتی قرضہ یومیہ 1 ارب روپے ہے، ہم نے پائیدار ترقیاتی اہداف حاصل کرنے میں بہت دیر کردی ہے۔ہم اس وقت ہنگامی صورتحال سے دوچار ہیں، اگر ہم نے اب بھی کام نہ کیا تو آنے والے سالوں میں یہ جگہ ناقابل رہائش ہو جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 10 سال کے اندر پانی کی شدید قلت ہو جائے گی اور پاکستان ماحولیاتی تنزلی کی وجہ سے تباہ ہو سکتا ہے۔

مسعود لوہار نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ عوام کو ٹیوب ویلوں کے ذریعے غیر پائیدار طریقے سے پانی نکالا، جس سے نمکیات حاصل کی جاتی ہیں ۔ میں نے اپنی نوجوان نسل کے لیے اس علاقے کو دوبارہ آباد کیا ہے۔ میں سندھ حکومت کے تعاون کا شکر گذار ہوں جس نے اس منصوبے میں میری مدد کی اور ہماری مالی مدد بھی کی۔ ہمیں مختلف اقسام کے رہائشی اور ماحولیاتے نظام کے تحفظ اور بحالی کی اشد ضرورت ہے۔

 تقریب کو موڈریٹر اور معروف صحافی قطرینہ حسین نے موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر روشنی ڈالی بتای کہ موسم کے بدلتے ہوئے انداز پر اظہار خیال کیا۔انہوں نے واضح کیا کہ مسعود لوہار نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پیشگی اقدامات کے بارے میں بات کی ہے ، کیونکہ اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، یہ سب کچھ اسے منظم کرنے کے حوالے سے ہے۔

سیشن کے اگلے مقرر ندیم میربہار نے اپنے خطاب میں کراچی کے تاریخی تناظر پر بات کی۔ان کا کہناتھا کہ جدید تاریخ میں لوگ کہتے ہیں کہ کراچی صرف حال کے بارے میں ہے ، لیکن سکندر اعظم کی تاریخ یعنی 325 قبل مسیح میں بھی کراچی میں آبادی مقیم تھی ۔تاریخ کے مطابق اس علاقے کے باشندے دبلے پتلے اور قد میں لمبے ہوتے تھے اور وہ موٹی تلوے کی چپل پہنتے تھے۔

آبادی کی حرکیات میں تبدیلی کی وجہ یہ تھی کہ ساحلی علاقہ ایک پناہ گزین ساحل تھا۔ڈیلٹا ایریا کے قریب راستے ہیں، تاہم، وہاں ایک رابطہ منقطع ہے، اور اس کی وجہ زلزلہ کی سرگرمی ہے۔شاہ مراد علیانی نے کہا کہ لوگوں نے اس علاقے کی طرف ہجرت کی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہ بہت زیادہ محفوظ ہیں کیونکہ یہاں قدرتی طور پر مینگرووز اگتے ہیں اور وہ صحت مند ہیں، جب کہ دیگر علاقے سیلاب اور کٹاؤ کا شکار تھے۔انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ انفرادی طور پر ہم موسمیاتی بحران میں کس طرح مدد کر سکتے ہیں؟شاہ مراد علیانی نے کراچی میں مزید سبز مقامات اور زیادہ نم علاقوں کے قیام کی اشد ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی عوام میں بہت زیادہ صلاحیت ہے، اگر ہم اپنے وسائل کو ہدایت دیں اور زیادہ تعمیری توجہ دیں تو ہم حالات سے نمٹنے کے قابل ہو جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ تبدیلی فرد کے اندر سے آنی چاہیے۔ اگر ہم صارفین کی ذہنیت پر قابو پا لیں اور پلاسٹک کی بوتلوں کا استعمال بند کر دیں تو ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں ۔ہمیں اپنے اندر تیزی سے تبدیلی کو شامل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ کراچی بد سے بدتر ہوتا جائے گا، اور ہمیں خدشہ ہےکہ موسم مزید سنگینی کی طرف بھی جاسکتاہے۔ اگر ہم نے انفرادی طور پر کارروائی کا آغاز نہیں کیا تو یقینی طور پر بہت دیر ہو جائے گی۔

Advertisement

لائبریری میں منعقدہ ایک انتہائی من پسند سیشن میں، دو لیجنڈز ارفع زہرہ اور زہرہ نگاہ نے اپنے تجربات کو وہاں موجود اساتذہ اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ شیئر کیا ۔ دونوں نے ان شخصیات کی یادیں تازہ کیں جو اب اس دنیا میں نہیں ۔ دونوں خواتین کے درمیان ہونے والی گفتگو نے حاضرین کو سحر میں مبتلا کردیا۔

ارفع زہرہ نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں آئی جی آفتاب رضا کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا، کہ ہمارے آئی جی آفتاب رضا ایک اچھے انسان تھے اور انہیں پولیس میں دیکھنا کچھ حیران کن تھا ، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ ہماری پولیس کا کے امیج کو اتنا اچھا تصور نہیں کیا جاتا۔ جبکہ آفتاب رضا بہت نفیس انسان تھے ۔

کالاباغ کے نواب نے ہمیں ملاقات کے لیے بلایا تھا ۔ وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ صرف یونین والے ملاقات ل کےلیے آئیں گے، لیکن پورا گورنمنٹ کالج ان سے ملنے پہنچ گیا۔ اس وقت دفعہ 144 نافذ تھی اس لیے ایک وقت میں چار سے زائد لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی تھی ۔ ہماری یونین کے صدر سید علی کاظم نے ہم سے کہا کہ ہم ایک طرف کھڑے ہو جائیں، آفتاب رضا نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اتنا منظم اجتماع کبھی نہیں دیکھا تھا ۔دونوں خواتین نے لیجنڈ آرٹسٹ ایم ایف حسین کو بھی بڑے شوق سے یاد کیا اور ذکر چل پڑا کہ وہ چپل نہیں پہنتے تھے۔جب انہیں برطانیہ کے ایک اعلیٰ درجے کے ڈپارٹمنٹل اسٹور پر روکا گیا تو انہوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ وہ چپل کی جوڑی اپنے ساتھ رکھتے ہیں ۔

زہرہ نگاہ نے یہ ذکر یہ چھیڑدیا کہ وہ آدھا کپ چائے پیتے تھے ۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو انہوں نے اس سوال کا جواب دیا کہ جب وہ پوسٹر پینٹ کر رہے تھے،اس وقت انہیں آدھا کپ چائے ملتی تھی ، جس کی قیمت اُس وقت ایک آنا تھی،وہ پینٹنگ بنانے کے دوران چائے سے لطف اندوز ہوتے رہتے تھے ۔

عظیم ناموں کی پیاری یادیں نوجوان نسل کو یاد دہانی کراتی ہیں کہ کس طرح گزرے ہوئے دور کے عظیم لوگوں نے زندگیو ں کو آپس میں ملا دیا۔ اُن لوگوں کے پاس ایک وژن تھا اور وہ اس پر قائم رہے اور اسی وجہ سے تاریخ کی کتابوں میں آج انہیں ایک خاص مقام حاصل ہے۔تاہم انہیں تاریخ کی کتابوں تک محدود نہیں رہنا چاہئے بلکہ ان کی خوبیوں کے بارے میں ہر خاص و عام کو بات کر کے خوشی محسوس کرنی چاہیے۔

لائبریری ،تالیوں اور قہقہوں کی آواز سے اُ س وقت گونج اٹھی جب دونوں خواتین نے اپنی ذہانت اور کہانی سنانے کے اپنے منفرد انداز سے سامعین کو خوب محظوظ کیا۔

Advertisement

 میلے کی رونق دیکھنے کے لیے معروف فنکار جمی انجینئر بھی یہاں پہنچےتھے۔اپنے ساتھیوں سے ملاقات کے دوران ان نے چہرے پر ایک دلکش مسکراہٹ موجود تھی ۔بول نیوز سے بات کرتے ہوئے جمی انجینئر نے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھاکہ مجھے بہت خوشی ہے کہ اس فیسٹول کا انعقاد کیا گیاہے۔ فریئر ہال اس ادبی میلے کے لیے ایک بہترین پس منظر کے طور پر کام کر رہا ہے۔امینہ سیدہمیشہ شاندار ادبی میلے منعقد کرنے کا انتظام کرتی ہیں۔ میں ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں ۔

سید جاوید اقبال نے بھی میلے کے انعقاد پر پر خوشی کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ سب کو معلوم ہے کہ ملک میں آنے والی قدرتی آفات کے تناظر میں ، یہ میلہ ایک خوش آئند ایونٹ ہے ۔ کراچی نے ہمیشہ حیرت انگیز دانشوروں کی موجودگی پر فخر کیا ہے، میں انہیں اس تقریب کے لیے اکٹھا دیکھ کر بہت خوشی محسوس کررہا ہوں ۔

میلے کی آرگنائزر امینہ سید کو فریئر ہال کے انجان راستوں پر چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا ۔ اس میلے کی بدولت ان کی محنت صاف نظر آرہی تھی ۔عوام کی بڑی تعداد کی موجودگی کی وجہ سے خوش دکھائی دینے والی امینہ سید نے میڈیا کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے اپنے شہر کے لوگوں سے کچھ کم کی توقع نہیں تھی، ہمارے لوگ ادب کے لیے پیاس محسوس کرتے ہیں ۔ ادب میلہ عوام کو اکٹھا کرنے اور نئے ٹیلنٹ کو متعارف کرانے کا ایک بہترین موقع ہے۔

ادب میلے میں بچوں کے بوتھ پر سب سے زیادہ ہجوم نظر آیا کیونکہ وہاں بچے موسیقاروں کے ساتھ ’ بندر روڈ سے کیماڑی‘ اور ’ گول گپے والا آیا ‘جیسے کلاسک گیت گانے میں مگن تھے ۔میلے میں دیگر عظیم شخصیات نے بھی مختلف سیشنز میں شرکت کی ان میں شرمین عبید چنائے، جاوید جبار اور اعتزاز احسن شامل تھے۔جیسے جیسے سورج غروب ہوتا گیا، بڑی دھوم دھام سے شروع ہونے والا پُرفضا مقام پر سجایا گیا میلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔

اس میلے کی بدولت ایک سست اتوار ،دلچسپ اور فکر انگیز چھٹی میں تبدیل ہوچکا تھا۔لیجنڈز سے ملاقات کے دوران لوگ ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔ ان کے علم سے بہت کچھ سیکھنےکی کوشش کرتے رہے ۔اگلے ادب میلے تک، یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ روشنیوں کا شہر 26 اور 27 نومبر کو چمک اٹھا۔ شہریوں کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اب بھی بہت کچھ باقی ہے ۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
امریکا بگرام ایئربیس کی واپسی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، ذبیح اللہ مجاہد
شکتی سائیکلون کے اثرات، کوئٹہ میں گرد و غبار کا طوفان، حدِ نگاہ صفر کے قریب
کراچی میں جرائم بے قابو، 9 ماہ میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں 50 ہزار کے قریب پہنچ گئیں
غزہ میں ہولناک تباہی، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں لرزا دینے والے حقائق بے نقاب
اسرائیل و حماس میں بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور آج ہو گا، جنگ بندی پر پیش رفت متوقع
سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاس سے پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ، ن لیگ سے معافی کا مطالبہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر