Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سائیڈ مرر کے بغیر دو پہیوں والی سواری

Now Reading:

سائیڈ مرر کے بغیر دو پہیوں والی سواری

پاکستان جیسی کمزور معیشت والے ملک میں موٹر سائیکل کا رجحان نیا نہیں ہے۔ یہ ایک عام آدمی کے لیے نقل و حمل کا آسان اور سستا ذریعہ ہے۔ اگر طویل فاصلوں کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر ہوتا تو موجودہ دور میں شاید موٹرسائیکل کی صنعت اتنی تیزی سے فروغ نہ پاتی۔

دو پہیوں والی سواری شہر کی ناہموار سڑکوں پر سفر کرنے کے لیے تیز اور مؤثر ہے۔ مردوں کی جانب سے اسےذرائع نقل و حمل اور بعد ازاں خاندانی سواری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔یہ شاید واحد گاڑی ہے جو کم قیمت اور بالا نشین ہے۔

جب بھی موٹرسائیکلوں کا ذکر ہوتا ہے، تو متاثر کن باڈی کے ساتھ ایک جدید طرز کی دو پہیوں والی گاڑی کی تصویر ذہن میں آجاتی ہے۔یہ ایک غلط تاثر ہے، جو مارکیٹنگ کمپنیوں نے بنایا ہوا ہے۔ اگرچہ میڈیا میں لڑکوں کو عام طور پر لڑکی کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ان کی خوابوں کی سواری جدید دو پہیوں والی گاڑی کا استعمال کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔جب کہ  حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

جب کسی موٹرسائیکل کا ذکر ہوتا ہے تو ہالی ووڈ کے چاہنے والوں کے تصور میں ٹام کروز جیسے شخصیت آتی ہے، جو ان کی جانب بڑھ رہا ہے، جب کہ  دیگر لوگ اپنا انتخاب بھارتی ہیروز سے لے کر ہمارے مقامی ساحر لودھی تک کرسکتے ہیں، جنہیں اپنی پہلی فلم میں ہیرو عرف ‘ٹام کروز’ کے طور پر پیش کیا گیا تھا، جب وہ ‘ہیروئن’ کو ڈرائیو پر لے جاتے ہیں،تو ان کے بال ہوا میں اڑ رہے ہوئے ہوتے ہیں۔

Advertisement

خوشگوار تخیل کے ختم ہونے کے بعد ایک بھیانک حقیقت میں آنکھ کھلتی ہے، خوابوں خیالوں والی ’بائیک‘، جس کو ’ہاگ ہیگ‘ کہا جا سکتا ہے، سےکالا دھواں نکل رہا ہوتا ہے۔ لباس،میک اپ اور نفاست سے بنائے ہوئے بال،سب کچھ بگڑ جاتا ہے بال الجھ جاتے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے کسی بھوت کو آباد ہونے کے لیے ٹھکانہ مل گیا۔کوئی  مضحکہ خیز حد تک اپنی لپ لائن کے گرد پھیلی ہوئی لپ اسٹک کو درست نہیں کرسکتی،کیونکہ میک اپ کی کسی بھی خرابی یا بالوں کو نفاست سے درست کرنے کے لیے بائیک پر کوئی سائیڈ مرر نہیں ہے، جو اب پھولے ہوئے گھنگھریالے اور مکمل طور پر بے قابو ہو چکے ہیں۔

جیسے ہی موٹر سائیکل ناہموار سڑک پر جاتی ہے،تو ٹکراؤ اتنا رومانوی نہیں ہوتا، جتنا کسی نے تصور کیا ہوگا۔حقیقت سامنے آتے ہی سڑک پر ایک اچھال آنے پر آپ کو گلے میں گھٹن محسوس ہوتی ہے کیونکہ ’دوپٹہ‘ موٹر سائیکل کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے اور یہ خوفناک صورتحال آپ کی جان لینے کے لیے تیار ہے۔ اس وقت تک ڈوپامائن( دماغ میں خارج ہونے والا ایک کیمیکل جو خوشی کا احساس دلاتا ہے) کا اخراج ختم ہو جانا چاہیے اور حقیقت کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ کیا رومانوی رابطہ جاری رکھنا ممکن ہے یا فوری کسی کی جان بچانے کے لیے کارروائی ضروری ہے؟

  بعد ازاں کئی حادثات میں یہی سچائی سامنے آتی ہے کہ موٹرسائیکل سواروں کی اکثریت کے پاس سائیڈ مرر نہیں ہوتا اور نہ ہی بائیکس ’پرکشش‘ ہوتی ہیں۔ درحقیقت، کہیں بھی کوئی شان نظر نہیں آتی، کیونکہ وہ بدنما کپڑے کے اندر چھپی ہوئئ ہوتی ہیں۔قیمتی ‘بائیک’ کے کھلے ہوئے حصوں کو کپڑا لپیٹ کر ڈھک دیا جاتا ہے۔

روزانہ طویل سفر کرنے والے ابرار جو کہ مکینک ہیں، نے بتایا کہ ایسا کیوں ہے،انہوں نے کہا کہ “مجھ سمیت لوگوں کے پاس سائڈ مرر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یہ واضح طور پر ہمارے لیے کافی پریشان کن ہوتے ہیں۔میں نہیں چاہتا کہ ان کی وجہ سےہیڈلائٹس کی روشنی منعکس ہو کر میری آنکھوں پر پڑے،ان کی وجہ سے میری توجہ بھی سڑک سے ہٹ جاتی ہے ۔ میں اور میرا خاندان ہر جگہ بغیر کسی حادثے کے سفر کرتے ہیں۔

2021ء کی تحقیق کے مطابق، گزشتہ دس سال میں پاکستان میں رجسٹر ہونے والی مجموعی گاڑیوں کا 74 فیصد موٹر سائیکلیں ہیں۔ حال ہی میں سائیڈ مررز کے لیے موٹر سائیکلوں کوحاصل ‘استثنیٰ’ کو معزز عدالت کے نوٹس میں لایا گیا۔ اس کا مؤقف یہ ہے کہ قانون میں ‘استثنیٰ’ کے اصول کو منسوخ کیا جانا چاہیے، کیونکہ عقبی منظر دیکھے بغیر ذرائع نقل و حمل کو بڑے حادثات کا خطرہ ہے۔ اور آئے روز حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر سے بچا جاسکتا ہے۔

بشیر ہر روز اپنی موٹرسائیکل پر کام پرجاتے ہیں،جس سے گھن گرج کی آواز آتی ہے۔ ان کی بائیک کے سائیڈ مرر نہیں ہیں، جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے سادگی سے جواب دیا کہ کیونکہ یہ اس طرح نئی نویلی لگتی ہے۔ جب کسی بھی طرح ’مردانگی‘ چیلنج ہوتی ہے تو پھر حفاظت کا تصور کہیں پھر کرکے اڑ جاتا ہے۔

Advertisement

اگر کوئی بارش سے ٹوٹی ہوئی کراچی کی سڑکوں پر سفر کرے تو یہ رجحان واضح ہو جاتا ہے۔ نہ صرف موٹر سائیکل ایک جنگ زدہ علاقے کی طرح نظر آتی ہیں بلکہ یہ بھی لگتا ہے کہ انہیں کسی پرانی ردی کی دکان سے عجلت میں چوری کیا گیا ہے۔خوش فہمی پلک جھپکتے میں ایک ڈراؤنا خواب بن جاتی ہے۔

اسفار کی کہانی ہماری فلمی ہیروئن کی کہانی سے مماثلت رکھتی ہے۔ اسے ایک خوبصورت لڑکی سے پیار ہو گیا، اس نے اسے اپنے دوست کی شادی میں دیکھا تھا۔طویل عرصے دوستی کے بعد انہوں نے باہر ملنے کا فیصلہ کیا، اسفار بہت پرجوش تھا، اس نے سیلون میں اپائنٹمنٹ بک کرائی، فیشل کروایا اور اپنے بال تراشے۔تیار ہو کر وہ اپنی کھٹارا موٹر سائیکل پر سوار ہوا۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کی تیار ہونے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں، جب لڑکی پرجوش انداز میں اس کے قریب پہنچی، تو اسے اس ڈراؤنی چیز کی امید نہیں تھی جس پر وہ بیٹھا تھا۔ اس کا پہلا ردعمل مایوسی تھا۔ تاہم وہ کچھ نہیں بولی۔ وہ اسے متاثر کرنے کے لیے بہترین انداز میں تیار ہوکر آئی تھی ۔ایک افسانوی رومانس نے جلد ہی ایک تلخ موڑ لے لیا، کیوں کہ ’بائیک‘ نے ہر ممکن حد تک لڑکی اور اس کے رومانوی جذبات کے درمیان میں آنے کو یقینی بنایا۔ جب وہ شاہراہ فیصل پر ٹریفک جام میں پھنس گئے تو ان کی لیڈی لو کو بدمعاش موٹر سائیکل نے اچھال کر گرادیا۔ اسفار نے اس پر دھیان نہیں دیا، اس کی توجہ سڑک پر تھی۔ اور سائیڈ مرر نہ ہونے کی وجہ سے اسے اندازہ نہیں ہوا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ وہ ایسے بولتا رہا جیسے وہ ساتویں آسمان  پر ہو۔جب وہ موٹرسائیکل پارک کرنے کے لیے مڑا تو اسے اس وقت دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ اسے احساس ہوا کہ وہ اسے کہیں گرا چکا ہے۔ اسے ادراک ہوا کہ اس کے خوابوں کی لڑکی اس کے پیچھے نہیں بیٹھی تھی۔

’’کیا آپ اس کا تصور کر سکتے ہو؟ میرا مطلب ہے کہ میں نے اس کے لیے سب کچھ کیا، لیکن وہ چلی گئی۔جو کچھ ہوا اس کی وجہ سے اس نے میرا نمبر بلاک کردیا۔یہ پوچھے جانے پر کہ اس نے سڑک پر ہوتے ہوئے اس کی غیر موجودگی کو کیوں محسوس نہیں کیا، تو اس کا جواب تھا کہ مجھے معلوم نہیں تھا، میری توجہ سڑک پر مرکوز تھی۔ میں آگے دیکھ رہا تھا، پیچھے نہیں،ظاہر ہے میرے پاس سائیڈ مررز نہیں ہیں، بہرحال یہ کس کے پاس ہیں؟‘‘ اسفار کی ابتلا سے انہیں دھچکا لگا لیکن وہ اس لڑکی کی جانب سے انہیں اس بے رحمی سے مسترد کرنے کی واضح وجہ نہ سمجھ سکے،جب کہ  اس کی وجہ وہ لڑکی نہیں بلکہ درحقیقت ان کی سواری تھی۔ سائیڈ مررز کی کمی نے مشکل صورتحال کو مزید خراب کیا۔ موٹر سائیکل ان کے گھر کے باہر کھڑی ہے، اس کے خستہ حال ٹائروں پر گندگی لگی ہوئی ہے، کپڑا پرانا ہے اور پھٹنے کے قریب ہے، اسفار کے لیے ان کی موٹر سائیکل میں کوئی برائی نہیں ہے۔

بابر اپنے خاندان کو ویک اینڈ پر باہر لے جانا پسند کرتے ہیں، وہ پورا ہفتہ گھروں کی صفائی میں مصروف رہتا ہے۔ انہوں نے اپنی قیمتی موٹر سائیکل کے لیے بچت کی تھی،لیکن اس ’قیمتی‘ بائیک کا بھی کوئی سائیڈ مرر نہیں ہے۔ ان کی موٹر سائیکل سرخ کپڑے میں لپٹی ہوئی ہے جسے وہ احتیاط سے صاف کرتے ہیں، میاں بیوی اور ان کے پانچ بچے اس پر سفر کرنا پسند کرتے ہیں۔ کیا وہ سائیڈ مررز لگانے کا فیصلہ کریں گے؟ “نہیں، ہرگز نہیں، وہ پریشان کن ہیں، اور پیچھے سے آنے والے لوگ آئینے میں میری بیوی کو دیکھتے ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے۔” بابر کے معاملے میں ان کی بیوی کی ‘عزت’ پورے خاندان کی حفاظت سےبڑھ کر ہے ۔ وہ اس حقیقت سے غافل ہیں کہ بائیک سائیڈ مرر کے ساتھ آتی ہے۔

کراچی کی ٹریفک پر موٹر سائیکلوں کا راج ہے، سائیڈ مررز کی عدم موجودگی نہ صرف خطرناک ہے، بلکہ یہ غیر ذمہ دارانہ بھی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اس کے قریب کیا آرہا ہے تو وہ اپنے آپ کو کسی ناخوشگوار واقعے سے کیسے بچا سکتا ہے؟ اس کے لیے لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ  یہ ایک مسئلہ ہے اور اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا  تو اسفار جیسی دیگر بہت داستانیں ہیں اور کراچی کے اسفار دوسرے علاقوں میں بھگتتے رہیں گے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
امریکا بگرام ایئربیس کی واپسی کا خواب دیکھنا چھوڑ دے، ذبیح اللہ مجاہد
شکتی سائیکلون کے اثرات، کوئٹہ میں گرد و غبار کا طوفان، حدِ نگاہ صفر کے قریب
کراچی میں جرائم بے قابو، 9 ماہ میں اسٹریٹ کرائم کی وارداتیں 50 ہزار کے قریب پہنچ گئیں
غزہ میں ہولناک تباہی، اقوام متحدہ کی رپورٹ میں لرزا دینے والے حقائق بے نقاب
اسرائیل و حماس میں بالواسطہ مذاکرات کا نیا دور آج ہو گا، جنگ بندی پر پیش رفت متوقع
سینیٹ اور قومی اسمبلی اجلاس سے پیپلز پارٹی کا واک آؤٹ، ن لیگ سے معافی کا مطالبہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر