Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

شہر قائد لٹیروں کے رحم و کرم پر

Now Reading:

شہر قائد لٹیروں کے رحم و کرم پر

پُرتشدد جرائم میں اضافہ، شہریوں سے ڈکیتیوں کے خلاف مزاحمت نہ کرنے کی اپیل

کراچی میں راہزنی کے واقعات اس سال مزید پُرتشدد ہوگئے کیونکہ شہر میں ڈکیتی کی کوششوں میں مزاحمت کرتے ہوئے ڈاکوؤں کے ہاتھوں 106 افراد مارے گئے جب کہ گزشتہ سال 69 ہلاکتیں ہوئیں۔

سربراہ ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے بول نیوز کو بتایا، “اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹریٹ کرائم میں تشدد کا عنصر بڑھ رہا ہے کیونکہ اس سال زیادہ لوگ مارے گئے۔ تاہم کراچی کی بڑی آبادی کے پیشِ نظر جرائم کے مجموعی اعداد و شمار میں آٹھ فیصد اضافے کو تشویش ناک نہیں کہا جا سکتا۔

ایڈیشنل آئی جی کراچی اسٹریٹ کرائم کے پرتشدد واقعات میں اضافے کے پیچھے وجوہات کی وضاحت نہیں کر سکے۔ انہوں نے صرف اس بات کا اعادہ کیا کہ عوام کو ڈکیتی کے وقت مزاحمت نہیں کرنی چاہیے۔

Advertisement

ایک ٹی وی چینل کے سینئر صحافی اطہر متین بھی ڈاکوؤں کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ اطہر متین نے نارتھ ناظم آباد میں ڈکیتی کی واردات دیکھی اور اپنی گاڑی سے ڈاکوؤں کو ٹکر مارنے کی کوشش کی تاہم، ڈاکو بچ گئے اور انہوں نے موقع پر ہی اطہر متین کو گولی مار کر قتل کردیا۔

بڑھتے ہوئے جرائم کے درمیان پولیس کے مبینہ مقابلوں میں بھی اس سال تقریباً 70 فیصد اضافہ ہوا۔ پولیس نے گزشتہ سال 118 مشتبہ ڈاکوؤں کے مقابلے میں 39 ڈاکوؤں کو ہلاک کیا۔ پولیس کی جانب سے 800 سے زائد مبینہ مقابلوں میں 973 ڈاکوؤں کو زخمی اور 8 ہزار سے زائد مشتبہ ڈاکوؤں کو گرفتار بھی کیا گیا۔

کراچی پولیس کے سربراہ نے موبائل فون، موٹر سائیکل یا سامان چھیننے کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں ان واقعات میں تین فیصد کمی آئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سال جنوری سے لے کر اب تک تقریباً 30 ہزار موبائل فون چھینے گئے، جس میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 16 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اسی طرح 30 سے 40 ہزار موٹر سائیکلیں چوری ہوئیں جب کہ بندوق کی نوک پر موٹرسائیکل چھیننے کے واقعات اس سال شاذ و نادر ہی ہوئے جو چھ سے سات فیصد تک رہے۔

زیادہ متاثرہ علاقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا “مجرمانہ سرگرمیوں سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے ہمیشہ وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، اس لیے ہم بھی اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں اور ضرورت کے مطابق اپنی پکٹس کو بھی منتقل کرتے ہیں۔ ضلع وسطی، ضلع شرقی اور ضلع کورنگی کے علاقوں میں ہاٹ سپاٹ کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اگر نقشہ دیکھا جائے تو یہ محراب بن جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ زیادہ گنجان آباد علاقے ہیں اور اس علاقے کے زیادہ تر لوگ کم متوسط یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر نے جگہیں تبدیل کیں لیکن انہوں نے ان علاقوں میں جرائم کا ارتکاب کیا کیونکہ وہ تنگ گلیوں کی وجہ سے آسانی سے غائب ہوجایا کرتے تھے۔

Advertisement

کراچی پولیس چیف نے جرائم پیشہ افراد کے ملوث ہونے کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا تاہم انہوں نے کہا کہ افغان اور پشتون افراد مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے اور انہوں نے کورنگی نالے کے آس پاس پناہ لی۔ اسی طرح چھینا جھپٹی اور چوری کی وارداتیں کرنے والے دیگر عناصر منشیات کے عادی تھے۔

انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری بھی اسٹریٹ کرائمز میں اضافے کا ایک اور سبب ہے۔ بے روزگار ہونے والے چند لوگ مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے گئے۔

تاہم، پولیس کے اعداد و شمار ایڈیشنل آئی جی کراچی کے بیان کردہ اعداد و شمار سے قدرے مختلف تھے۔ ان اعدادوشمار کے مطابق اسٹریٹ کرائمز میں 106 افراد ڈاکوؤں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے ہلاک اور 419 زخمی ہوئے۔

ان اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے اب تک شہریوں سے گن پوائنٹ پر 27 ہزار 249 موبائل فون چھینے گئے۔ جہاں تک کار چوری اور چھیننے جانے کا تعلق ہے تو ڈاکوؤں نے گن پوائنٹ پر 185 گاڑیاں چھینی جب کہ 1 ہزار 981 گاڑیاں چوری کی گئیں۔ گزشتہ سال گن پوائنٹ پر 230 کاریں چھینی گئیں جب کہ کم و بیش 1 ہزار 700 گاڑیاں چوری کی گئیں۔

اسی طرح رواں سال نہتے شہریوں سے گن پوائنٹ پر 4 ہزار 462 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں جب کہ گزشتہ سال 4 ہزار 251 موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔ اس سال مزید 47 ہزار 921 موٹرسائیکلیں چوری ہوئیں،  گزشتہ سال یہ تعداد 44 ہزار 536 تھی۔

کمیونٹی پولیس کراچی کے سربراہ اور سٹیزن پولیس لائیژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کے سابق ڈپٹی چیف مراد سونی نے اسٹریٹ کرائمز میں زیادہ تر ملوث ہونے کا ذمہ دار افغانیوں کو ٹھہرایا۔ ان کا کہنا ہے کہ افغانیوں کی آمد اور جرائم میں ان کی شمولیت کئی گنا بڑھ گئی ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی سفری یا شناختی دستاویزات نہیں ہوتیں۔

Advertisement

اسٹریٹ کرائم میں بڑھتے ہوئے تشدد کے بارے میں مراد سونی نے کہا کہ افغانیوں نے معمولی سی مزاحمت پر فائرنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر حکومت نے اس کا نوٹس نہ لیا تو اگلے تین سالوں میں شہر کا کوئی گھر بھی افغان مجرموں سے محفوظ نہیں رہے گا۔

ماہرین کراچی پولیس حکام کے اس موقف سے متفق نہیں ہیں۔ جامعہ کراچی کے شعبہ جرائم کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نعیمہ سعید نے مراد سونی کے موقف پر کہا “آپ مقامی عنصر کو نظر انداز کر کے صرف افغان عنصر پر الزام نہیں لگا سکتے،”۔

انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار یا دستاویزات کے کسی ریکارڈ کی دیکھ بھال نہیں کی گئی جو رائے بنانے کی بنیاد بن سکے۔ “اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان آتشیں اسلحے کے استعمال سے نہیں ہچکچائیں گے کیونکہ وہ اس کے عادی ہیں لیکن پولیس یہ کہہ کر افغان عناصر کے ملوث ہونے کا الزام لگا کر خود کو بری نہیں کر سکتی کہ وہ کراچی میں ان کی آمد کو نہیں روک سکتی۔”

انہوں نے کہا کہ “میں حال ہی میں ریمانڈ روم گئی جہاں میں نے دیکھا کہ پشتو، بلوچ اور سرائیکی بولنے والے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ اسٹریٹ کرائم کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے لیے کوئی بھی پالیسی وضع کرنے سے پہلے تحقیق کی جانی چاہیے۔

علاوہ ازیں بے روزگاری کی شرح بھی بہت زیادہ ہے جو جرائم کے بڑھنے کا سبب بنی۔ انہوں نے مزید کہا “سڑکیں خستہ حال ہیں، جس سے ٹریفک جام ہوتا ہے جو جرائم کے لیے ہاٹ سپاٹ بنتے ہیں۔ پولیس اور حکومت کو ایسی جگہوں پر سیکورٹی کو یقینی بنانا چاہیے۔”

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پاکستان نے افغانستان میں موجود گل بہادر گروپ کے 70 سے زائد خارجی واصل جہنم کر دیے
افغانستان کی جگہ زمبابوے سہ ملکی سیریز میں شامل ہوگیا
افغانستان نے تمام احسانات فراموش کر کے جارحیت کی ، شاہد آفریدی
پیپلزپارٹی  نے وفاقی حکومت کو وعدوں پر عملدرآمد  کے لئے  ایک ماہ کی مہلت  دیدی
ملک کو معاشی دفاعی و سفارتی لحاظ سے مستحکم کر دیا ، وزیراعظم شہباز شریف
جنگ بندی کے باجود اسرائیلی بربریت جاری،اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک ہی خاندان کے 11 فلسطینی شہید
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر