
شہر کراچی ایک بار پھر تاریک وجوہات کی بنا پر سرخیوں میں ہے۔ حال ہی میں ملیر کی شمسی کالونی کے رہائشی 43 سالہ فواد نامی شخص نے اپنی بیوی 40 سالہ ہما اور تین بیٹیوں کو قتل کر دیا۔ بیٹیوں میں 16 سالہ نیہا، 12 سالہ فاطمہ اور 10 سالہ سمرا شامل تھیں۔ بیوی اور بیٹیوں کو بہیمانہ طور پر قتل کرنے کے بعد اس نے خودکشی کی کوشش کی جو کامیاب نہ ہوسکی۔ وہ بچ تو گیا مگر اس کے گلے اور اوتار صوت ) vocal cords ( پر زخم آئے۔
واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ مقتولین کی لاشوں اور زخمی ملزم کو جناح اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) کورنگی، ساجد خان سدوزئی کے مطابق، پولیس نے ممکنہ آلہ قتل )چاقو(برآمد کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے۔ چاقو کی ساخت اور شکل کے بارے میں، پولیس نے کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں۔
قتل کی اس واردات کے لیے کسی دوسرے فرد کے گھر میں داخل ہونے کے امکان کو بھی رد کر دیا گیا ہے۔ یہ نتیجہ اس حقیقت پر مبنی ہے کہ خاندان ایک گھر کے ایک چھوٹے سے حصے میں رہتا تھا، جس میں دو کمرے تھے۔ اس کے علاوہ کوئی داخلی راستہ نہیں تھا۔
میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایس ایس پی سدوزئی نے بتایا کہ ایک کمرے میں تین لاشیں تھیں، چوتھی لاش دوسرے کمرے سے ملی۔
ملزم کی والدہ اور بھائی عمارت کے گراؤنڈ فلور پر رہائش پذیر ہیں۔ یہ ماں اور بھابھی ہی تھیں جو اوپر گئیں اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئیں تو دیکھا کہ فرش پر پھیلا خون تالاب کی شکل اختیار کرگیا تھا اور اس میں لاشیں لت پت پڑی تھیں۔ ملزم بھی زخمی حالت میں وہیں پڑا ہوا تھا۔ ماں نے پولیس کو بلالیا۔
پولیس کو دیے گئے بیان میں ملزم کی ماں نے کہا کہ، ” میاں بیوی کے درمیان مسائل تھے لیکن اتنے شدید نہیں تھے کہ اس حد تک چلے جاتے کہ یہ ظلم ہوتا۔”
ملزم فواد نجی کمپنی میں سیلز مین کے طور پر کام کرتا ہے۔ اسپتال میں ابتدائی علاج کے بعد اس نے تحریری پیغامات کے ذریعے ایک بیان دیا، جس میں کہا گیا کہ ‘وہ مالی مسائل کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار تھا اور اپنی بیوی کو سمجھا سمجھا کر تھک گیا تھا۔’ اس نے پولیس کو مزید بتایا، ‘میری بڑی بیٹی لڑائی کی وجہ سے رونے لگی۔ اس نے کہا کہ ہمارے جھگڑوں نے انہیں (بچوں) کو پریشان کردیا ہے،” اس نے مزید کہا کہ اس کی دوسری دو بیٹیاں سونے کی تیاری کر رہی تھیں۔
فواد نے مزید کہا کہ اس کی بیوی نے دوپہر کے کھانے کے بعد اس کے ساتھ ’بدتمیزی‘ کی۔ فواد نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی بیٹیوں کو اس وقت قتل کیا جب اس کی بیوی غسل خانے میں تھی۔
اپنے بیان کے دوران ایک نامعلوم سرمایہ کار کا حوالہ دیتے ہوئے فواد نے بتایا کہ اس نے اپنے سرمایہ کار کو تصاویر بھیجی تھیں اور بتایا تھا کہ اس نے اپنا خاندان ختم کر دیا ہے۔ اس نے سرمایہ کار کو مزید لکھا کہ ’اب میں خود کو مار رہا ہوں۔‘
قتل کی اس لرزہ خیز واردات کی جنگل کی آگ کی طرح پورے شہر میں پھیل گئی اور ہر ایک غصے و افسوس کی کیفیات میں ڈوب گیا۔ قتل کے محرکات کے بارے میں قیاس آرائیاں شروع ہوگئیں۔ ملزم فواد کے جاننے والے اور دوستوں کو اس واردات پر یقین ہی نہیں آرہا تھا۔ مشتبہ شخص کے قریبی ذرائع کے مطابق، ملزم فوا بہت ملنسار شخص ہے اور اپنے خاندان سے گہری محبت رکھتا ہے۔
اس سلسلے میں فواد کے دوستوں کے ساتھیوں کے مشاہدات پر توجہ دینا دلچسپ ہے۔ کسی کوبھی اس پر کسی غلط کام میں ملوث ہونے کا شبہ نہیں تھا، وہ اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں بہت مقبول تھا، اسے ایک ’خاندانی آدمی‘، اپنی برادری کا ایک ستون سمجھا جاتا تھا۔
تو ’خاندانی‘ سمجھے جانے والے اس آدمی کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ اپنی بیوی اور بچیوں کے لیے اس قدر سفاک اور سنگدل کیوں بن گیا؟ کوئی بھی ہر چیز کو شک کی چادر سے ڈھانپ سکتا ہے، سوائے اس کے جو سامنے ہے، یعنی ’حقائق‘۔
پولیس کو دیے گئے اپنے بیان کے مطابق فواد کو مالی مسائل کا سامنا تھا۔ وہ ایک مصالحہ جات کے کارخانے میں ملازم تھا، اس کا مصالحہ بیچنے کا اپنا کاروبار بھی تھا اور اس کے لیے اسے سرمایہ کاروں کی ضرورت تھی۔ آج معیشت غیر مستحکم ہے، کاروبار آدھے رہ گئے ہیں، تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ فواد کا ‘کاروباری ماڈل’ اس کی توقع کے مطابق ترقی نہیں کرسکا۔ اس کے مبینہ سرمایہ کاروں نے پیسے مانگنا شروع کر دیے، وہ رقم جو شاید اس کے پاس نہیں تھی۔ اس نے تناؤ کو جنم دیا، کیونکہ جہاں پیسے کی بات آتی ہے وہاں سرمایہ کار بے لگام اور کافی سفاک ہو سکتے ہیں۔ مالی پہلو نے بھی خاندانی معاملات پر اثر ڈالا، جس کی وجہ سے اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان بہت سے جھگڑے ہوئے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بچوں کا کیا قصور تھا؟
قتل کی سفاکیت ایک اور ممکنہ منظر نامے کی نشاندہی کرتی ہے، جس کو اکثر پیتھالوجسٹ اور بڑے پیمانے پر معاشرہ نظرانداز کردیتے ہیں، اور وہ ہے اس شخص کا اپنا شخصی خاکہ۔ ایک مکمل خاندانی زندگی رکھنے والا آدمی، مالی مشکلات کے باوجود، اپنے بیوی بچوں کو اس طرح ذبح کیوں کرنا چاہے گا؟
ماہر نفسیات ڈاکٹر قدسیہ طارق بتاتی ہیں، “بدسلوکی کرنے والے کئی طرح کے ہوتے ہیں، کوئی ’ناراض‘ ہو سکتا ہے، کوئی ’بے بس‘ اور غیر محفوظ اور کوئی حسد کرنے والا ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے شراکت دار اور بچوں پر الزام اور ذمہ داری دھر رہا تھا۔
شخصی خاکہ نگاری یا پرسنالٹی پروفائلنگ ایک مشکل کام ہے، لیکن اس سے قاتل کے اس سفاکانہ فعل کا اصل محرک سامنے آسکتا ہے۔ ڈاکٹر افشاں دامجی امین کے مطابق، جو کچھ ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ’’ملزم فواد اپنے بچپن میں جذباتی طور پر غیر مستحکم خاندانی ماحول کا شکار تھا۔ ممکن ہے وہ بچپن کے کسی غیر حل شدہ صدمے کے ساتھ زندگی گزار رہا ہو۔ اگر اس پر توجہ نہ دی جائے تو پھر یہ صدمہ ڈپریشن سمیت تمام امراض کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
نفسیات اور مشتبہ شخص کے ممکنہ ناقابل تشخیص حصے کے مطابق، کوئی شخص اس کے جرم کے پیچھے ممکنہ محرکات پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ کوئی بھی نئے تجربے کے لیے انتہائی بلند مواقع دیکھ سکتا ہے، اسی لیے اس نے ’اپنے مسالے کے کاروبار‘ کی دنیا میں قدم رکھا۔ وہ ملنسار تھا، جس کا اندازہ اس کے دوستوں اور اہل خانہ کے بیانات سے واضح طور پر لگایا جا سکتا ہے۔ وہ عام طور پر نرم مزاج تھا، تاہم، وہ عورتوں سے شدید ناراضگی کا اظہار کر سکتا تھا۔
یہ واضح ہے کہ وہ نرگسیت پسند ہے کیونکہ وہ سوشل میڈیا پر اور جاننے والوں کے ساتھ ایک بہترین زندگی کی تصویر پیشں کیا کرتا تھا۔ ایک اور بات جو قابل غور ہے کہ وہ کس طرح سے اپنا خیال کرتا تھا۔ اس کی داڑھی اور ناخن احتیاط کے ساتھ تراشے ہوئے تھے۔ یہ بات اس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو خوش مزاج ظاہر کررہا تھا۔ وہ سرمایہ کاروں سے پیسہ نکلوانے میں کامیاب ہوگیا ، جو اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اس کا دماغ بہت تیز ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس میں دیانت داری کا عنصر کم ہے۔ اور وہ شدید اعصابی خلل کا شکار ہے۔
جہاں تک اس بھیانک جرم کا تعلق ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا کیوں کرے گا؟ جرم سے منسلک تناؤ کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ (جیسا کہ زیادہ تر لوگوں میں ہوتا ہے) اپنے دماغی صحت کے مسائل سے واقف نہیں تھا، یہ سمجھنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈپریشن کا شکار تھا۔ وہ بمشکل اپنی روزمرہ کی زندگی کو سنبھال پا رہا تھا، اور قرض کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا۔
اگر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے سے اس کے بکھرے ہوئے امیج کا مسئلہ حل ہوجاتا تو پھر اس نے قتل کا ارتکاب کیوں کیا؟ اس نے اپنے مسائل کے لیے شاید دنیا کو مورد الزام ٹھہرایا، اور اس کے ذہن میں یہ ایک بے غرضانہ اقدام تھا۔ یہ ایک طرح کی ‘میں دنیا کے خلاف ہوں’ والی ذہنیت تھی، جو نرگسیت کا شکار بیشتر افراد میں ہوتی ہے۔ ایک اور وجہ غصہ بھی ہو سکتی تھی، اس نے اپنی پریشانیوں کا ذمہ دار بچوں اور بیوی کو ٹھہرایا تھا۔ یہ اس کی بیوی اور معاشرے سے بڑے پیمانے پر انتقام ہو سکتا ہے، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو شکار قرار دیتے ہوئے الزام خود سے دوسروں پر منتقل کردیا۔ اس نے یہ جرم سوچ سمجھ کر اور موثر انداز سے کیا تھا، اور اپنے جرائم کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے وہ جذبات سے عاری تھا۔ یہ جرم برسوں تک ماحول سے ہم آہنگ نہ ہوپانے کے ردعمل کی انتہا تھی۔ چوں کہ رویہ سامنے نہیں آسکا تھا، اس لیے یہ نظرانداز ہوتا چلا گیا۔
زیادہ تر معاملات میں، خاص طور پر پاکستان میں بیوی پر الزام تراشی کا رجحان دیکھنے میں آتا ہے۔ یہ سالوں پر محیط اس سماجی تربیت کی وجہ سے ہے کہ ‘عورتوں کا معاشی بوجھ نہیں اٹھایا جاسکتا’ چنانچہ وہ زیادہ تر مالی پریشانیوں کا سبب ہیں۔ اس طرح کی ذہنیت کے ساتھ، کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ مرد کی زندگی میں زیادہ تر مسائل کا ذمہ دار خواتین کو کیوں ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے ساتھ کہ وہ تین بیٹیوں کا باپ تھا، اس نے اپنی زندگی میں موجود تمام برائیوں کی ‘جڑ’ یعنی عورتوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی۔
فواد جیسے لوگ ہمارے درمیان ہیں، شاید کوئی ہم کار، کوئی دوست، کوئی جاننے والا یا خاندان کا کوئی فرد، کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ مجرم اور مجرمانہ ذہنیت انسانی ذہن کے تاریک ترین دور میں چھپی ہوئی ہے۔ اگر منظر عام پر نہ لائی جائے تو اس کا انجام خون کی ہو لی ہو سکتا ہے جیسا کہ اس واقعے میں دیکھا گیا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News