
دیہاتی غیر ملکی شکاریوں کے لیے نقل مکانی پر مجبور ہوگئے
ایک ایسی زندگی کا تصور کریں جہاں کسی کو غیر ملکی شکاریوں کے لیے خطرے سے دوچار پرندے کا شکار کرنے کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑنا پڑے۔ یہی نہیں بلکہ شاہی معززین کے حفاظتی حصار کی غلطی سے خلاف ورزی کرنے پر اپنی کی جان کا خوف بھی رہتا ہے۔ سندھ کے تین اضلاع میں پھیلے سفید ریگستان یا اچرو تھر میں برسوں سے یہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔
نومبر 2021ء میں ناظم جوکھیو کے قتل کے بعد سانگھڑ اور خیرپور اضلاع سے تعلق رکھنے والے اڑتالیس خاندانوں کے سربراہان جن کے گھر اور زمینیں سفید صحرا میں واقع ہیں،نے کراچی میں ایڈووکیٹ ہاشم لغاری سے رابطہ کیا تاکہ وہ برسوں سے جھیلنے والی توہین اور مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرسکیں۔
بعد ازاں ایڈووکیٹ ہاشم لغاری نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک مفاد عامہ کی درخواست دائر کی، جس میں متاثرہ خاندانوں کی پریشانیوں کو بیان کیا گیا اور نہ صرف متاثرین کے لیے بلکہ بڑے پیمانے پر عوام کے لیے ریلیف کا مطالبہ کیا گیا۔
درخواست کو حال ہی میں چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کے لیے مقرر کیا۔ ایڈووکیٹ ہاشم لغاری نے استدعا کی کہ یہ سب کے علم میں ہے کہ حکومت سندھ ہر سال عرب معززین کو ہوبارا بسٹرڈ کے شکار کے لیے اجازت نامے جاری کرتی ہے جسے عرف عام میں تلور کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے پسندیدہ پرندے کے شکار کے ساتھ ساتھ ہرن، مور، بٹیر اور سرمئی اور کالے تیتر جیسی نایاب جنگلی حیات کی نسلوں کا بھی شکار کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ نسلیں معدومیت کے دہانے پر پہنچ چکی ہیں۔
انہوں نے بنچ کو آگاہ کیا کہ سیکورٹی کی آڑ میں شکار کے سیزن میں درخواست گزاروں اور دیگر غریب دیہاتیوں کو اپنے کھیتوں میں کام کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔ حفاظتی انتظامات اتنے سخت ہوتے ہیں کہ دیہاتیوں کو کنوؤں سے پانی لینے سے بھی منع کیا جاتا ہے جب کہ شاہی شکاریوں کو شکار کے اجازت ناموں کے ساتھ ساتھ بارشوں سے چلنے والی بارانی زمینوں پر کاشت کی گئی کھڑی فصلوں کو جتنا نقصان پہنچانا چاہیں اور شکار کے دوران وہاں مویشیوں کو مارنے کا لائسنس بھی دیدیا جاتا ہے۔
ایڈووکیٹ ہاشم لغاری کے مطابق شاہی معززین کو گاؤں والوں کے مکانات گرانے اور اس علاقے کو شکار گاہ کے طور پر استعمال کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ گاؤں والوں کو کیمپ کے 100 کلومیٹر سے زیادہ کے دائرے میں آنے سے منع کیا گیا ہے۔ گاؤں والوں کو تقریباً دو ماہ سے ان کی جائیدادوں سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
وکیل نے یہ بھی بتایا کہ حال ہی میں دو اضلاع کے سینئر سپرنٹنڈنٹس آف پولیس (ایس ایس پیز) اور مختلف اسٹیشن ہاؤس آفیسرز (ایس ایچ اوز) کے اُکسانے پر علاقے کے کچھ بااثر زمیندار اُن لوگوں کے گھروں میں گھس گئے جنہوں نے جانے سے انکار اور مزاحمت کی تھی۔ انہوں نے گاؤں والوں کو بری طرح مارا پیٹا اور ان کے خلاف فوجداری مقدمات درج کروادیئے لیکن درخواست گزاروں کی جانب سے پولیس کی ہٹ دھرمی کے خلاف مظاہرے کے باوجود حکومت سندھ نے صرف شاہی مہمانوں کو خوش کرنے کے لیے پولیس افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی اور علاقے کے لوگوں مویشیوں اور املاک کو ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کو نظر انداز کیا گیا۔
ایڈووکیٹ ہاشم لغاری نے کہا کہ ایسے مجبور حالات میں درخواست گزاروں کے پاس اپنے غیر معمولی آئینی دائرہ اختیار کو استعمال کرتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے علاوہ کوئی اور مؤثر اور متبادل راستہ نہیں بچا۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ صوبائی چیف سیکرٹری کو ہدایت کی جائے کہ وہ سیکرٹری جنگلی حیات، چیف کنزرویٹر آف وائلڈ لائف اور اضلاع کے گیم وارڈن کو عرب معززین کو شکار کے اجازت نامے جاری کرنے سے روکیں اور جن شکاریوں کو شکار کے پرمٹ جاری کیے گئے ہیں، اُنہیں صرف تعداد کے مطابق اُن انواع جن کی اجازت دی گئی ہے، کے شکار کرنے کا پابند کیا جائے۔
وکیل کی جانب سے عدالت سے درخواست گزاروں کی پُرامن زندگی میں خلل ڈالنے سے روکنے، دیگر دیہاتیوں کو اپنے خاندانوں کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے اپنی زمینوں پر کاشت کرنے کی اجازت اور ان کی جان مال اور مویشیوں کی حفاظت اور انھیں ان کے گھروں اور زمینوں سے بے دخل نہ کرانے کے حوالے سے حکم نامہ جاری کرنے کی بھی استدعا کی گئی۔
سیکرٹری جنگلی حیات نے عدالت کو بتایا کہ اگرچہ آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ جنگلی حیات صوبائی حکومت کے دائرے میں آتا ہے، تاہم وفاقی حکومت غیر ملکی شخصیات کو شکار کے اجازت نامے جاری کر رہی ہے۔ چیف جسٹس نے سیکرٹری جنگلی حیات سے استفسار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وفاقی حکومت کسی ایسے کام کی اجازت دے جو صوبائی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہو۔ جب سیکریٹری نے جواب دیا کہ شکار کے اجازت نامے دینے کے احکامات وفاقی حکومت جاری کرتی ہے اور محکمہ ان احکامات کی تعمیل میں پرمٹ جاری کرتا ہے تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا وفاقی حکومت کے احکامات میں لوگوں کو ہراساں کرنے اور گھروں اور جائیداد سے نکالنے کی ہدایات موجود ہیں؟
عدالت نے سیکرٹری کو ہدایت کی کہ وہ چار ہفتوں کے اندر مکمل تفصیلات فراہم کریں کہ اجازت نامے کس قانون کے تحت جاری کیے جاتے ہیں اور پرمٹ کے ساتھ کس قسم کی شرائط عائد کی جاتی ہیں۔ عدالت نے درخواست کی سماعت موسم سرما کی تعطیلات تک موخر کردی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News