Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

کراچی کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ کرپشن سے آلودہ

Now Reading:

کراچی کو خوبصورت بنانے کا منصوبہ کرپشن سے آلودہ

کراچی کے بنیادی ڈھانچے کی بحالی کے لیے عالمی بینک کی مالی اعانت سے چلنے والا پروگرام نفاذ سے پہلے ہی بے ضابطگیوں کے الزامات کے بعد تنازعات میں گھر گیا ہے۔

Advertisement

دو انجینئرنگ فرمز نے سندھ ہائی کورٹ میں صوبائی محکمہ بلدیات اور کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کی جانب سے مسابقتی اور قابل رہائش شہر کراچی (CLICK) منصوبے کے ٹھیکوں کو چیلنج کیا ہے۔

عالمی بینک بڑے شہر کو رہنے کے قابل، جامع اور مسابقتی میگا سٹی میں تبدیل کرنے کے لیے CLICK پروجیکٹ کے لیے 32اعشاریہ 2 ارب روپے فراہم کر رہا ہے۔ اس منصوبے کی کل لاگت تقریباً 33 اعشاریہ 600 ارب روپے ہے جس میں حکومت سندھ 1اعشاریہ 4 ارب روپے کا حصہ ڈال رہی ہے جو کہ منصوبے کی لاگت کا تقریباً پانچ فیصد ہے۔

پروجیکٹ کی سرگرمیوں کو منظم اور مربوط بنانے کے لیے لوکل گورنمنٹ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن اور سندھ کے سرمایہ کاری کے محکموں میں تین پروجیکٹ مینجمنٹ یونٹ قائم کیے گئے ہیں۔

MRK ایسوسی ایٹس کے مالک محمد رمیز خان، راحیل شہزاد اور شہزاد یوسف زئی کی جانب سے عدالت میں دائر کیے جانے والے دعویٰ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹھیکے سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2009ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیئے گئے۔CLICK پروجیکٹ کے تمام لوکل گورنمنٹ کنٹریکٹس غیر قانونی، بدنیتی پر مبنی اور ناجائز ہیں لہذا انہیں منسوخ کیا جائے۔

صوبائی سیکرٹری لوکل گورنمنٹ، میونسپل کمشنر کے ایم سی، منیجنگ ڈائریکٹر سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (ایس پی پی آر اے)، پروگرام ڈائریکٹر کلک، ڈائریکٹر جنرل (ٹیکنیکل سروسز) کے ایم سی اور انجینئرنگ ایسوسی ایٹس کو فریق بناتے ہوئے درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا ہے کہ کراچی جیسے شہر کو سیوریج کے ابتر نظام، صاف پانی کی عدم فراہمی ، خستہ حال سڑکوں سمیت دیگر مسائل کا سامنا ہے۔صوبائی حکومت نے ادارہ جاتی اور پالیسی اصلاحات کو مضبوط بنانے اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے حوالے سے صلاحیت بڑھانے کے لیے عالمی بینک کے تعاون سے CLICK منصوبے کا آغاز کیا۔ اس پروگرام کے لیے مجموعی طور پر 230 ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ مقدمے کے اقتباسات اور جزویات زیرِ قوانین معاہدہء خریداری کے غیرقانونی انعام کے ذریعے ایک چیلنج کے گرد گھومتے ہیں۔

درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ ریگولیٹری اتھارٹی قانونی طور پر پابند ہے کہ وہ اپنی ویب سائٹ اور اخبارات میں تین لاکھ روپے سے زیادہ کی خریداریوں کی تشہیر کرے۔ قانون کے اس لازمی پہلو کو فریقین نے بے دردی سے کچلا ہے، جس کی وجہ سے وہ قانونی چارہ جوئی پر مجبور ہوئے۔

Advertisement

سندھ پیپلز کنسٹرکٹرز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری نے صوبائی سیکریٹری لوکل گورنمنٹ کو 16 کاموں کے ٹھیکوں میں ہونے والی غیر قانونی خلاف ورزیوں سے آگاہ کیا تھا لیکن کوئی اصلاحی اقدامات نہیں کیے گئے۔

درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ انہیں مختلف دستاویزات ملی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ میونسپل کمشنر کے ایم سی نے ’’ایمرجنسی روڈ ریپئر ورک‘‘ کے نام سے ایک جھوٹا پروجیکٹ بھی بنایا ہے جس کے تحت مختلف ٹھیکیداروں کو 3ہزار600 ملین کے ٹھیکے دیے گئے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ٹھیکے بغیر کسی اشتہار کے براہ راست منظور نظر لوگوں کی فرمز کو دیئے گئے جس کی وجہ سے بہت سے ممکنہ شرکاء کو کھلی بولی کے عمل سے محروم کر دیا گیا۔

درخواست گزاروں کی جانب سے محکمہ لوکل گورنمنٹ پر غلط رویہ اپنانے کا الزام عائد کیا گیا ہے جس کا ان کے بقول اس حقیقت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پہلے سے طے شدہ نتائج اور رشوت وکمیشن کی وصولی کو یقینی بنانے کے لیے محکمہ لوکل گورنمنٹ نے ایک افسر آصف جان کو جان پہچان کی بنیاد پر چارج سونپ دیا ۔آصف جان BPS-19 کے افسر ہیں اور انہیں پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی بنایا گیا ہے، جو BPS-20 کے افسر کے لیے ہے۔ آصف جان پروجیکٹ میں کلیدی عہدے پر فائز ہیں۔ درخواست گزاروں کے مطابق یہ حقیقت صرف یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ کس طرح انگلیوں پر ناچنے والے افسران کی تقرری اور انہیں اضافی ڈیوٹیاں لگا کر بڑے پیمانے پر کرپشن کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔

درخواست گزاروں نے فریقین پر یہ بھی الزام عائد کیا کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا کر ان کی اجارہ داری کو یقینی بنایا گیا ہے اور انجینئرنگ ایسوسی ایٹس جیسی صرف چند کمپنیوں کو ٹھیکے دیئے جا رہے ہیں۔ درخواست گزاروں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ انہیں بولی کے عمل میں حصہ لینے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ پراجیکٹس کی تشہیر کی جائے لیکن سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی ویب سائٹ پر اشتہارات کی اشاعت کے ذریعے پیسہ سب میں پھیلادیا جاتا ہے۔

 درخواست گزاروں نے سندھ پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے معاہدوں کو منسوخ کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے علاوہ فریقین کو براہ راست ٹھیکہ دینے یا سندھ پبلک پروکیورمنٹ ایکٹ 2009ء کے سیکشن 17 اور اس کے تحت بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا ٹھیکہ دینے سے مستقل طور پر روکنے اور انہیں براہ راست معاہدوں کے لیے کوئی رقم جاری کرنے سے روکنے کا بھی مطالبہ کیا۔

Advertisement

سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد شفیع صدیقی نے مقدمے کی پہلی سماعت پر تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہدایت کی کہ وہ ورلڈ بینک کی جانب سے فراہم کردہ فنڈز سے کام کے لیے اب تک جاری کیے گئے ٹینڈرز کی تفصیلات جمع کرائیں۔ جسٹس صدیقی نے جواب دہندگان کو ہدایت کی کہ وہ ہر ٹینڈر، اس کی رقم اور کام کی نوعیت اور پروکیورمنٹ رولز پر عمل درآمد نہ کرنے کی وجوہات کی تفصیلات بھی فراہم کریں۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
نیپرا کا بڑا ایکشن اضافی بلنگ اور لوڈشیڈنگ پر گیپکو اور سیپکو پر جرمانہ
مستونگ میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشن؛ بھارتی پراکسی فتنہ الہندوستان کے 4 دہشت گرد ہلاک
کراچی، ای بی ایم کاز وے کے دونوں ٹریک ٹریفک کے لیے کھول دیے گئے
کراچی انٹرمیڈیٹ بورڈ نے آرٹس ریگولر گروپ کے نتائج کا اعلان کردیا
سندھ میں نجی اسکولوں کے لیے بڑی تبدیلی، اسکول مالکان کے لیے اہم ہدایت
صدر آصف زرداری چین کے سرکاری دورے پر چنگدو پہنچ گئے
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر