حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے جس میں ڈاکٹر ولید کے 29 میڈلز کا موازنہ ایک ایسی لڑکی سے کیا گیا ہے جس نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اپنی ایک ڈانس ویڈیو سے شہرت حاصل کی۔ انٹرنیٹ صارفین میں ایک بحث کا آغاز ہوا کہ میمز اور ڈانس کو فروغ دیا جاتا ہے جب کہ تعلیم میں آگے بڑھنے والوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور اس رویے کو ہمارے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا اشارہ قرار دیا۔ تاہم، ماہرین تعلیم اور ڈاکٹر اس بات سے متفق نہیں ہیں اور اس موازنے کو غیر منصفانہ قرار دیتے ہیں۔
یہ سب اس وقت شروع ہوا جب ولید ملک کی 29 میڈلز پہنے تصویر کو سوشل میڈیا پر پذیرائی ملی۔ کیپشن میں ٹیلی وژن میڈیا کو ملک میں حقیقی ٹیلنٹ کی بجائے ڈانس کو فروغ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
جیسے ہی یہ پوسٹ وائرل ہوئی، ہر میڈیا آؤٹ لیٹ نے ولید کو اپنے شوز میں مدعو کرنا شروع کر دیا لیکن وہ مطمئن نظر نہیں آئے۔ ان کے مطابق پوسٹ پبلک ہونے کے بعد انہیں الیکٹرانک میڈیا کی توجہ حاصل ہوئی، نہ کہ ان کی کاوشوں اور کامیابیوں کے بل بوتے پر۔
ولید کا کہنا تھا، ’’ایک معاشرے کے طور پر، ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ تعلیم ہمیشہ پہلے آتی ہے۔ آج کل، بچے اپنے والدین کے ساتھ رہنے کی بجائے اکیڈمیوں میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ تبادلہ خیال کا فقدان ہمیں ایک بیمار معاشرہ بناتا ہے جہاں اقدار پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر جاوید اقبال سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر دیکھے جانے والے موٹیویشنل اسپیکر ہیں۔ وہ اس بحث کو بے مقصد اور غیر ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ’’ولید کو پہلے ہی 29 تمغوں سے نوازا جا چکا ہے جو ایک حقیقی کارنامہ ہے۔ نوجوان لڑکے کو غلط نہیں سمجھنا چاہئے کیونکہ یہ موازنہ درست نہیں ہے۔ میڈیا اب انہیں پیش کر رہا ہے لیکن یہ ان کا مقصد نہیں ہونا چاہئے۔‘‘
امیر الدین کالج سے ایم بی بی ایس گریجویٹ، ولید کا تعلق لاہور سے ہے۔ انہوں نے اب تک کسی پاکستانی کے جیتنے والے سب سے زیادہ تمغے حاصل کرنے کا ریکارڈ توڑ دیا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ کنگ ایڈورڈز میڈیکل کالج کی ایک ایم بی بی ایس کی طالبہ کے پاس تھا جنہوں نے 23 گولڈ میڈل حاصل کیے تھے۔ اپنی محنت اور کوشش کے طویل سفر پر گفتگو کرتے ہوئے ولید نے کہا کہ ’’یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ پانچ سال تک، میں نے پڑھائی پر مکمل توجہ دینے کے لیے سماجی اجتماعات اور دعوتوں میں شرکت سے گریز کیا۔‘‘
اپنی کامیابیوں سے خوش، ڈاکٹر ولید نظام کی خامیوں اور کمزوریوں سے افسردہ بھی نظر آئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈاکٹر کے لیے ملازمت کے مواقع کم اور تنخواہ معمولی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہم ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے مواقع بہت کم ہیں۔‘‘ ولید کے مطابق، ملک کے باصلاحیت لوگ حوصلہ شکنی کی وجہ سے بیرون ملک سفر پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’مواقعوں کی کمی کی وجہ سے، ہمارے پاس بیرون ملک جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے 80 فیصد ہم عصر معالج دوسرے ممالک کو ترجیح دیں گے۔‘‘
ایک تجربہ کار ماہر تعلیم شیخ محمد علی کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے لوگ تفریحی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہر شخص کو سوشل میڈیا پر شہرت نہیں ملتی اور وہ جلدی اور آسانی سے بھلا بھی دیے جاتے ہیں۔
ولید کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے لیے ایک وقت آئے گا جب وہ دنیا کے قابل ذکر مقررین میں شامل ہوں گے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’مشہور ہوجانا کسی ڈاکٹر، سائنسدان یا پروفیسر کی ترجیح نہیں ہونی چاہیے۔ ان کا تجربہ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘
کراچی کے آرٹس کونسل میں حال ہی میں ختم ہونے والی اردو کانفرنس میں مقررین نے رقص یا کسی عجیب و غریب چیز کو پیش کرنے کے رجحان کی نشاندہی کی جو قابلیت پر مبنی کلچر کی مخالفت کو جنم دیتا ہے۔
اکیڈمیوں میں اداکاری اور تھیٹر سیکھنے والے طلباء کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع مشکل سے ہی ملتے ہیں لیکن شاید یہی سوشل میڈیا کی فطرت ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں بدنامی کی بھی اپنی ایک قدر ہے۔ بہت سے لوگوں کی طرف سے پسند یا دیکھی جانے والی کوئی چیز، اپنے مواد کے معیار سے قطع نظر، خود بخود معنی خیز بننے کی اہل ہو جاتی ہے۔ ’چائے والا‘ سے لے کر ’پارٹی ہورہی‘ تک، کامیابی کی کہانیوں کی فہرست خاصی طویل ہے اور آپ کبھی نہیں جان سکتے کہ اگلا ستارہ کون ہوگا، جو تھوڑی دیر کے لیے چمکتا ہے لیکن بے معنی بحث کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News