
ایک تاریخی عمارت سے کہیں زیادہ
میڈیکل کالج، ایک تاریخی مرکز
راولپنڈی کے مال روڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے ایک سادہ لیکن خوبصورت عمارت نظر آتی ہے جو اس وقت اسلامک انٹرنیشنل میڈیکل کالج کے مرکزی کیمپس کے طور پر کام کر رہی ہے تاہم اسے آج بھی ’’پریم کورٹ کی پرانی عمارت‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ عمارت عظیم تاریخی اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ 1974ء میں یہ عمارت سپریم کورٹ آف پاکستان کی منتقلی سے قبل دراصل مشرقی پاکستان ہاؤس کے نام سے جانی جاتی تھی جسے 60ء کی دہائی کے آخر میں صدر ایوب خان کی قیادت میں اس وقت کی حکومت نے وفاقی دارالحکومت آنے والے ارکانِ پارلیمنٹ، بیورو کریٹس اور افسران کی رہائش کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
عمارت کا مرکزی حصہ آج بھی ویسا ہی ہے۔ تاہم، گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ اس عمارت میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ فی الحال طلباء کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پرانی عمارت میں نئے کمروں اور بلاکس کا اضافہ کیا گیا ہے جس میں لیبارٹریز اور کلاس رومز شامل ہیں۔
کراچی سے دارالحکومت کی منتقلی کے بعد راولپنڈی نے ملک کے عبوری دارالحکومت کے طور پر کام کیا کیوں کہ اسلام آباد ڈیویلپمنٹ کے ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس دوران اسلام آباد کے پاس غیر ملکی مشنز کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ تمام مرکزی دفاتر راولپنڈی میں دستیاب سرکاری اور نجی عمارتوں میں قائم تھے۔ سینئر صحافی نواز رضا نے بول نیوز کو بتایا کہ بیرونِ ممالک کے زیادہ تر سفارت خانے ہارلے اسٹریٹ کے رہائشی بنگلوں میں منتقل کر دیے گئے جب کہ قومی اسمبلی کے اجلاس لال کرتی میں واقع نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں منعقد کیے جاتے تھے۔
مشرقی پاکستان ہاؤس کی تعمیر کی ضرورت دارالحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے بعد پیدا ہوئی اور چونکہ اسلام آباد ترقی کے ابتدائی مراحل میں تھا اس لیے وفاقی دارالحکومت میں آنے والے تمام افراد کو راولپنڈی میں رہنا پڑا۔ تاہم، اس میں پورے مغربی اور مشرقی پاکستان سے وہاں آنے والی لوگوں کی بڑی تعداد کی رہائشی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
ابتدائی طور پر 1962ء میں مشرقی پاکستان سے یہاں آنے والے منتخب نمائندوں اور حکام کے طعام وقیام کے لیے وزارت دفاع سے ایک عمارت حاصل کی گئی۔
اس دوران گورنر مشرقی پاکستان کی کوششوں سے وفاقی حکومت نے مرکزی پشاور روڈ پر مشرقی پاکستان ہاؤس کی تعمیر کی منظوری دی جو اس وقت راولپنڈی کنٹونمنٹ کے مضافات میں تھا۔ اس منصوبے پر کام 1965ء میں شروع کیا گیا۔ 20 لاکھ روپے کی لاگت سے بننے والی یہ عمارت دو سال کے عرصے میں مکمل ہوئی۔
یہ عمارت گورنر مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ رہائشی بلاک، 18 رہائشی کمرے اور چار وی آئی پی سویٹس پر مشتمل تھی جب کہ عمارت کے آگے اور پیچھے شاندار لان بھی تھے۔
14 مئی 1967ء کو صدر ایوب خان نے اس عمارت کا باضابطہ افتتاح گورنر مشرقی پاکستان عبدالمنعم، مشرقی پاکستان کے وزیر برائے ورکس اینڈ پاور اینڈ ایریگیشن، مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں سے تعلق رکھنے والی دیگر سیاسی شخصیات کے ساتھ کیا تھا۔
نواز رضا نے بتایا کہ جلد ہی مشرقی پاکستان ہاؤس سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا اور مولانا مودودی، خواجہ نظام الدین، مولوی فرید، نورالامین اور نوابزادہ نصر اللہ خان جیسے لوگ اکثر یہاں آیا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا ’’میں نے صحافیوں کے ایک وفد کے ہمراہ اس عمارت میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان، پاکستان کے سابق وزیر اعظم نورالامین، مشرقی پاکستان کے دیگر ارکانِ پارلیمنٹ کے ساتھ بھی ملاقات کی تھی۔‘‘
مشرقی پاکستان میں ہنگامہ آرائی کے دوران حکام نے شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کر لیا تھا اور انہیں دوسری جگہ منتقل کرنے سے قبل چند روز کے لیے مشرقی پاکستان ہاؤس میں بھی نظر بند رکھا گیا۔
بنگلہ دیش بننے کے بعد یہ عمارت چند سالوں تک خالی رہی۔ تاہم، 1973ء کے آئین کے تحت وفاقی دارالحکومت میں جب عدالتِ عظمی کے قیام کی ضرورت پیش آئی تو اس وقت تک اس عمارت کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اس کے بعد اسلام آباد میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی نئی عمارت تعمیر کی گئی۔
جب کہ دسمبر 1993ء میں اسلام آباد میں اپنے قیام سے قبل سپریم کورٹ کو 1974ء میں اس عمارت کے احاطے میں منتقل کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود بعد میں بھی دارالحکومت میں نئی رہائش گاہوں کی تعمیر تک ججز کی جانب سے اس عمارت کو اپنے رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سزائے موت دینے کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل کی بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی بینچ نے اسی عمارت میں سماعت کی۔
تاہم، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا جس کے نتیجے میں نواز محمد احمد خان قصوری کے قتل کے الزام میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی۔
یہ عمارت آج بھی سپریم کورٹ کے ججز کے اہل خانہ کے لیے فلاحی ادارے المیزان فاؤنڈیشن کے زیر انتظام ہے جب کہ خستہ حال ہونے کے باوجود عمارت کے مرکزی حصے پر سپریم کورٹ آف پاکستان کا نشان دیکھا جا سکتا ہے۔
نواز رضا نے مزید کہا ’’اس عمارت کے ساتھ بہت سے تاریخی واقعات جڑے ہوئے ہیں لیکن جب بھی میں اس جگہ سے گزرتا ہوں تو یہ مجھے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے دردناک واقعے کی یاد دلاتا ہے، جس کا احساس تقریباً تمام مُحبِ وطن پاکستانیوں کو ہوگا۔‘‘
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News