
اس ہزاریے کے آغاز ہی سے اشیاء کی زیادہ سے زیادہ خریداری کے رجحان یا کنزیومرازم میں اضافہ ہوا ہے۔ چیزوں کو حاصل کرنے کے ’مفروضے‘ کے مسلسل دباؤ کو سوشل میڈیا کے حالیہ عروج نے بڑھاوا دیا ہے، جہاں لوگ راتوں رات سپر اسٹار بن جاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس بے مثال رجحان اور مقبولیت نے ’اثر انداز‘ ہونے کے کلچر کو متعارف کرایا۔ اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں) influencer ( کے شوق مختلف ہوتے ہیں، ان کی دل چسپیاں جدا جدا ہوتی ہیں، یہ کپڑے یا میک اپ سے محبت بھی ہو سکتی ہے۔ کنٹرول ان ’بااثر‘ افراد ہی کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ کسی مصنوعہ یا پروڈکٹ کو اس حد تک فروغ دے سکتے ہیں کہ لوگ ان افراد کی جانب سے اپنے لیے تجویز کردہ چیزوں کو خریدنے میں جلدی کرنے لگتے ہیں۔ صارفین ہر وہ چیز خرید لیتے ہیں جن کی ترغیب انہیں یہ بااثر افراد دیتے ہیں۔ اس سے اشیاء کی بلاضرورت خریداری کے رجحان یا کنزیومرازم کو فروغ ملا ہے۔
جب بڑے تجارتی اداروں نے یہ بے مثال رجحان دیکھا، تو وہ بلاتاخیر اس میدان میں کود پڑے اور بعد ازاں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا آغاز کردیا۔ انہوں نے ان ’بااثر‘ افراد سے بھی رابطہ کیا اور انہیں اپنے مال کی تشہیر کے لیے بھاری رقوم ادا کیں، انہیں affiliate codes بھی دے دیے گئے، جس کے نتیجے میں ان عام سے لوگوں کی اکثریت راتوں رات ارب پتی بن گئی۔ وہ دن گئے جب لوگ یہ دیکھنے کے لیے میگزین خریدتے تھے کہ کون سا نیا فیشن چل رہا ہے۔ اب اس کا تعین ان بااثر افراد کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ بااثر افراد اپنے دیکھنے اور سننے والوں یعنی ’ فالوورز‘ کی ان اشیاء کو ’خریدنے‘ کے لیے حوصلہ افزائی کرتے ہیں جنہیں وہ مناسب سمجھتے ہیں، (معصوم لوگوں کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے پسندیدہ یہ بااثر افراد اس مقصد کے لیے بھاری رقم حاصل کرتے ہیں)، اور پھر ان کے فالوورز اپنی محنت سے کمائی گئی رقم ان اشیاء کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے بعد سوشل میڈیا نے اپنی توجہ پراسرار خوشبو کی مارکیٹ پر مرکوز کر دی۔
خواتین سب سے زیادہ کپڑے اور میک اپ ہی خریدتی ہیں، خوشبو زیادہ تجریدی ہے، کیونکہ وہ دیکھی نہیں جا سکتی، صرف سونگھی جاتی ہے، جو لگانے والوں یا قریب سے گزرنے والوں میں مختلف جذبات کو جنم دیتی ہے۔ تاہم، پاکستان جیسی کمزور معیشت میں، خوشبوؤں کو ’پرتعیش‘ شے سمجھا جاتا ہے، کیونکہ ان کی قیمت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی قیمت ایک عام سی خوشبو کے لیے 7000 روپے سے اعلی معیار کی خوشبو کے لیے ڈھائی لاکھ روپے تک ہو سکتی ہے۔ یہ عام آدمی کے لیے کوئی سستا آپشن نہیں ہے۔
دنیا ابھی تک کووڈ 19 کے اثرات سے دوچار ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر معاشی کساد بازاری آئی ہے، اور خوشبوؤں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں نقلی خوشبوؤں کی مارکیٹ وسعت اختیار کرگئی ہے جس میں پچھلے دو سالوں میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ ہر نئی آنے والی خوشبو خریدنے کی دوڑ جنون کی حد کو چھونے لگی ہے۔ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے بظاہر مہنگی خوشبوؤں کا استعمال پاکستان جیسے غریب ملک میں بھی ایک معمول بن گیا ہے، جہاں فیشن پرست خوشبوؤں کی پراسرار دنیا کے بارے میں اپنی کم عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ، اکثریت سستے آپشن کا انتخاب کرتی ہے، یعنی یا تو وہ جعلی خوشبو خریدتی ہے یا پھر اسی کی نقل کا انتخاب کرتی ہے۔ اصلی خوشبوؤں کی نقل بہت مقبول ہورہی ہے اور بہت سی کمپنیوں نے یہ کاروبار شروع کر دیا ہے۔ خوشبو کی نقل کی مہک اصل خوشبو ہی کی طرح ہوتی ہے، مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا۔ زیادہ گھناؤنا رجحان ’مستند‘ مصنوعات کی آڑ میں جعلی خوشبوؤں کی خرید و فروخت ہے۔
یہ رجحان زیادہ تر آن لائن دیکھا جاتا ہے جہاں خواتین100 فیصد ’مستند‘ خوشبو فروخت کرنے کے لیے نیلامی کرتی ہیں۔ خریدار یہ سوچ کر دھوکہ کھاجاتے ہیں کہ انہیں کم قیمت میں اصلی اور معیاری خوشبو مل رہی ہے۔ وہ جعلی خوشبو لگانے کے خطرے سے واقف نہیں ہیں۔اس کا استعمال تباہ کن نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔
عبداللہ آن لائن خوشبو بیچنے والے معروف تاجر ہیں۔ ان کے گاہک پکے ہیں جو جانتے ہیں کہ جو کچھ وہ خرید رہے ہیں وہ مستند ہے۔ تاہم، جب کہ درآمدات پر پابندی ہے تو وہ اپنا کاروبار کیسے چلارہے ہیں؟ اس بارے میں عبداللہ بتاتے ہیں کہ وہ یا تو کسٹم سے مصنوعات حاصل کرتے ہیں یا بیرون ملک سے واپس آنے والے اپنے خاندان کے افراد اور دوستوں سے خوشبو کی دو یا تین شیشیاں ساتھ لے آنے کی فرمائش کردیتے ہیں۔ اگرچہ ان کا کاروبار پھل پھول رہا ہے لیکن لوگ پہلے کی طرح خریداری نہیں کررہے۔ عبداللہ کا کہنا ہے، ’’لوگ خصوصاً خوشبوئیں جمع کرنے کے شوقین ایک ہی بار میں 6 سے 8 خوشبوئیں خریدتے تھے، اب یہ تعداد کم ہو گئی ہے۔‘‘ کیا انہیں جعلی خوشبوئیں فروخت کرنے والوں کی جانب سے کسی مسابقت کا سامنا ہے؟ اس کا جواب وہ نفی میں دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ’’آپ نے دیکھا، ہمارے گاہک پکے ہیں، اور ہم جعلی خوشبوئیں نہیں بیچتے، اس لیے ہم پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ تاہم، کچھ لوگ سستی خوشبو خریدتے ہیں اور پھر ہمارے پاس آتے ہیں، ہم چیک کرتے ہیں اور انہیں اس کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اور کوئی بھی فرد جعلی خوشبو کی نشاندہی کرسکتا ہے۔‘‘
ایک عام آدمی کے لیے، جعلی کو اصلی سے الگ کرنا ناممکن ہے، لیکن ایسے طریقے ہیں جن کی بنیاد پر فرق کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر، جعلی خوشبوئیں کم قیمت ہوتی ہیں، محدود ایڈیشن کے طور پر فروخت ہوتی ہیں، اور ان میں سے تقریباً سبھی ڈبے کے بغیر آتی ہیں۔ جعلی خوشبو پہلی بار لگانے پر اصل سے ملتی جلتی ہی ہوتی ہے، اور یہی اس کی خاصیت ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ خوشبو بدل جاتی ہے کیونکہ اسے پرتوں میں تیار کیا گیا ہوتا ہے۔ جعلی خوشبو یا پرفیوم زیادہ عرصے تک نہیں چلتا، اور اگر ایسا ہو تو پھر اس میں خطرناک مصنوعی کیمیکل شامل ہوتے ہیں۔
برطانیہ میں رہنے والی خوشبو کی شوقین امنڈا لیوس کو اپنی نانی اور والدہ کی وجہ سے خوشبوؤں سے پیار ہو گیا اور جیسے ہی وہ خود خریدنے کے قابل ہوئیں تو انہوں نے خوشبوئیں جمع کرنا شروع کر دیں۔ ان کی ناک خوشبوؤں میں ٹھیک ٹھیک فرق محسوس کر سکتی ہے، اس لیے انہیں بے وقوف بنانا مشکل ہے۔ لیکن وہ بھی خوشبوئیں جمع کرنے والے دوسرے شوقینوں کی طرح آن لائن جعلی خوشبو بیچنے والوں کا شکار ہوچکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،’’یہ میرے ساتھ ہوا ہے۔ یہ Dior کی خوشبو تھی جسے Hypnotic Poison کہتے ہیں۔ یہ خوشبو بالکل اصلی لگ رہی تھی، لیکن مجھے اس کی مہک سے معلوم ہوگیا کہ یہ جعلی ہے ۔ میں پریشان تھی کیونکہ آپ صرف بوتل کو دیکھ کر نہیں جان سکتے تھے۔ میں نے یہ جانا کہ دوسرے پہلوؤں پر بھی دھیان دینا ہوگا جیسے کہ قیمت، کیونکہ جعلی چیزیں بہت سستی فروخت ہوتی ہیں اور جب آپ پروڈکٹ کے معیار کو دیکھتے ہیں تو یہ کوئی اعلی محسوس نہیں ہوتا۔ تحریر اور پیکیجنگ پر درج کوئی بھی معلومات، جعلی ہونے کی نشانی ہو سکتی ہے، کیونکہ حروف بڑے، چھوٹے، اوپر نیچے یا خراب انداز میں چھپے ہوئے ہو سکتے ہیں۔‘‘
جب محنت سے کمایا ہوا پیسہ ( جو آج کل کمانا بہت مشکل ہوگیا ہے) کسی ایسی چیز پر خرچ کیا جاتا ہے جو جعلی ہے اور جس سے صحت کو خطرہ ہوسکتا ہے، تو بہتر ہے کہ اس جال میں نہ پھنسیں۔ جعلی خوشبوئیں یا پرفیومز کیسے خطرناک ہو سکتے ہیں؟ ان میں Di(2-Ethylhexyl) phthalate، (DEHP) جیسے کیمیکل زیادہ مقدار میں شامل ہوتے ہیں۔ (DEHP)کی درجہ بندی، ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی (EPA) کی طرف سے کارسی نوجن کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ انسانوں کے لیے سب سے زیادہ مہلک زہریلے کیمیکلز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ ایف بی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق جعلی پرفیوم بعض اوقات پیشاب کی ملاوٹ سے بھی بنائے جاتے ہیں جو کہ بعض صورتوں میں جلد پر شدید خارش کا باعث بنتے ہیں۔ دیگر مضر صحت ضمنی اثرات میں مہاسے، چنبل، دانے، اور آنکھ کا انفیکشن ہونا شامل ہیں۔ جعلی خوشبوؤں میں استعمال ہونے والا ایک اور مہلک کیمیکل میتھانول ہے جو کہ فارملین میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ جعلی پرفیوم میں بڑی مقدار میں ناقص معیار کا یہ مادہ ) فارملین ( ہوتا ہے، جو جگر کے کینسر جیسے مہلک مرض کا باعث بن سکتا ہے۔
امنڈا لیوس کہتی ہیں، ’’جعلی خوشبوؤں کے فوائد سے زیادہ نقصانات کے پیش نظر افسوس سے احتیاط بہتر ہے۔ اگر آپ کو یقین نہیں ہے کہ آپ کیا خرید رہے ہیں تو پھر ان باتوں پر غور کرنے سے مدد ملے گی کہ ڈبا کیسا ہے؟ کیا یہ گھٹیا دکھائی دے رہا ہے ؟ مجھے لگتا ہے کہ کسی مستند دکان سے خریدنا زیادہ محفوظ ہے، ورنہ آپ خود کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘‘
جعلی خوشبوؤں کی مارکیٹ ہمیشہ پوشیدہ انداز میں کام کرتی ہے، تاہم، صارفین کے لیے سستے آپشن کا انتخاب کرنے کے بجائے تھوڑا سا زیادہ خرچ کرلینا بہتر ہے۔ اس طرح صارفین محفوظ ہوں ں گے اور ان کی صحت بھی متاثر نہیں ہوگی۔ بصورت دیگر نقلی خوشبو لگانے اور سونگھنے کے بعد علاج معالجے کے یقینی بل کے لیے تیار رہیں۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News