Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی

Now Reading:

سندھ میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کارروائی

سکھر پولیس نے معمول کے گشت کے دوران 14 بدنام زمانہ ڈاکوؤں کو گرفتار کرلیا

سندھ کے سب سے بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں اسٹریٹ کرائم کے بڑھتے ہوئے واقعات نے لوگوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ لوگ تمام امیدیں چھوڑ چکے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’مجرموں کو پکڑنے والا کوئی نہیں جب کہ وہ یہ بھی الزام عائد کرتے ہیں کہ پولیس کی طرف سے پر مجرموں اور ڈاکوؤں کو دی گئی آزادی کی وجہ وہ جہاں چاہیں جب چاہیں لوٹ مار کرکے اور مزاحمت کرنے والوں کو جان سے مارسکتے ہیں۔‘‘

کراچی میں حال ہی میں اسٹریٹ کرائمز کے دوران 5 افراد مارے گئے۔ 31 موٹر سائیکلیں اور 13 کاریں چھینی و چوری کی جاچکی ہیں جب کہ گھروں میں ڈکیتی کی چار وارداتیں رپورٹ ہوئیں۔ ڈاکو یہیں نہیں رکے بلکہ مسلح ملزمان کی جانب سے تو ایک اسکول میں گھس کر اساتذہ اور عملے کو لوٹ لیا گیا جس سے عوام میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ جو کراچی کے رہائشیوں کی بے بسی اور شہر میں امن و امان کو یقینی بنانے کے لیے پولیس اہلکاروں کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔

 سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں اسٹریٹ کرائمز میں اضافہ ہورہا ہے۔ قومی شاہراہ، خیرپور، شکارپور، کشمور، گھوٹکی اور جیکب آباد کے اضلاع سمیت لنک روڈز پر ڈکیتی واغوا برائے تاوان کی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں جب کہ شکارپور اور کشمور میں تو کثرت سے ڈاکو متحرک ہیں جس کی وجہ سے ان اضلاع میں ایسے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جس کے سبب لوگ عموماً رات کے وقت شکارپور اور کشمور کے دیہی علاقوں کا سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ڈاکوؤں نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔

Advertisement

کراچی میں سرگرم اسٹریٹ کرمنلز کا طریقہ واردات اندرونِ سندھ کے جرائم سے بالکل مختلف ہے۔ کراچی میں راہزنی کی زیدہ تر وارداتوں میں افغان مہاجرین ملوث ہیں۔ مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث دیگر گروہ شہر کے رہائشی نہیں ہیں، اس لیے وہ ڈکیتی اور چھینا جھپٹی کی وارداتیں بلاخوف وخطر کرتے ہیں کیوں کہ انہیں پہچانے جانے کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔

جرائم پیشہ افراد اب صرف اسٹریٹ کرائمز تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے تو کراچی اور حیدر آباد میں گھروں میں بھی ڈکیتیاں شروع کردی ہے جب کہ سب سے بدنام اور خطرناک گینگ کے سرغنہ تو تیزی سے اپنی پروفائل اپ ڈیٹ کر رہے ہیں جو کہ ان کی ایک چال ہے تاکہ اُن نہتے شہریوں کے دلوں میں خوف پیدا کیا جائے، جو ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں۔

مجرموں نے طریقہ واردات کو تبدیل کردیا ہے جو پرتشدد ہونے کے باعث زیادہ خطرناک ہوگئے ہیں جب کہ ان کا حالیہ طریقہ واردات خاندانوں کو یرغمال بنانا ہے  تاکہ زیادہ سے زیادہ تاوان حاصل کرتے ہوئے شہریوں کو خوفزدہ کیا جاسکے۔ ان کے ظلم کی کوئی حد نہیں ہوتی انہوں نے ’’پیسے دو یا مار ڈالیں گے‘‘ کا طرز عمل اپنالیا ہے جب کہ حیرت کی بات تو ہے کہ کچھ خواتین بھی ظالم ڈاکوؤں کا ساتھ دیتے ہوئے دیکھی گئی ہیں۔ شاید وہ ایک بیماری ’’اسٹاک ہوم سنڈروم‘‘ میں مبتلا ہیں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ امن و امان کے حوالے سے زمینی حقائق بہت تاریک ہیں۔

خواتین کا گھروں میں گھس کر ساتھیوں کو بلانے کا رجحان کوئی نئی بات نہیں، کراچی اور سندھ میں کئی گھروں میں اس طرح کی ڈکیتی کی وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ایک عورت کسی نہ کسی بہانے گھر میں داخل ہو کر صورتِ حال کا جائزہ لیتی ہے اور پھر اپنے ساتھیوں کو واردات کرنے کے لیے بلاتی ہے جب کہ مجرم کسی بھی صورت حال کے لیے تیار رہتے ہیں اور وہ بغیر سوچے سمجھے گولی چلا دیتے ہیں۔

اندرونِ سندھ کے کچھ علاقوں میں اسٹریٹ کرائمز بھی مختلف ہوتے ہیں اور یہ وہ مقامات ہیں جنہیں ’’کچے‘‘ کا علاقہ یا ندی کہا جاتا ہے جہاں ان کی کمین گاہیں موجود ہیں وہاں قانون کی حکمرانی نام کی کوئی چیز نہیں اور صرف ڈاکوؤں کے ’’بدنام گروہ‘‘ کا راج ہے۔ مسافر بسیں زیادہ خطرے سے دوچار ہوتی ہیں کیوں کہ وہ ان کا ممکنہ ہدف ہوتی ہیں۔ کراچی سے لاہور یا پشاور جانے والی بسوں کو عموماً روک کر مسافروں کو بندوق کی نوک پر لوٹ لیا جاتا ہے یا تاوان کے لیے یرغمال بنا لیا جاتا ہے جب کہ چھوٹی گاڑیاں بھی ڈاکووں کی کارروائیوں سے نہیں بچ پاتیں۔ جدید ہتھیاروں سے لیس ڈاکو چھوٹی گاڑیوں میں سوار لوگوں سے بھی چھینا جھپٹی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔

اور اگر ڈرائیور رکنے کی بجائے رفتار بڑھاتا ہے تو ڈاکو فائرنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور ایسے واقعات میں کئی ڈرائیورز اور مسافر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

Advertisement

 سندھ میں ڈاکو بھی اپنے موبائل سے نسوانی آواز میں دیہاتیوں سے بات کرتے ہیں۔ انسانی فطرت سے مجبور ہوکر خاتون کی آوازسے لوگوں کو جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ انہیں ایک دور افتادہ علاقے میں آنے کی ترغیب دیتی ہیں، جہاں سے انہیں اغواء کرلیا جاتا ہے۔ اس طریقہ واردات کو ’’ہنی ٹریپ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اندرونِ سندھ کے شہری علاقوں میں موٹرسائیکلوں کی چوری تو عام ہے لیکن بندوق کی نوک پر بھی موبائل چھیننا اور اے ٹی ایم سے نقدی نکالنے کے دوران ڈکیتی بھی معمول کے واقعات ہیں۔

سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں اس طرح کے واقعات دوسرے شہروں کے مقابلے میں کم ہیں کیوں کہ وہاں پولیس اسٹریٹ کرائمز پر قابو پالیتی ہے۔

سکھر پولیس نے (دوسرے شہروں کے مقابلے) جرائم سے نمٹنے میں کچھ حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ جنوری 2023ء کے دوران 13 مقابلوں کے دوران 3 خطرناک ترین ڈاکو مارے گئے جب کہ 14 کو گرفتار کرلیا گیا۔

پولیس کی سخت کارروائیوں کے نتائج بھی برآمد ہونا شروع ہوگئے ہیں کیوں کہ اسٹریٹ کرائمز اور اے ٹی ایم پر ڈکیتیوں کی وارداتوں میں کمی دیکھی گئی ہے جب کہ گھروں میں ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں پر بھی کچھ حد تک قابو پالیا گیا ہے۔

سکھر پولیس کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی اس وقت سامنے آئی جب انہوں نے بدنام زمانہ ڈاکو عبدالرسول عرف کلیم بھٹو اور سہیل میرانی کو ہلاک کر دیا۔ ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک نے بول نیوز کو بتایا کہ عبدالرسول عرف کلیم بھٹو بڑا مجرم تھا۔ اس نے پورے سندھ میں جرائم کرکے لوگوں کی زندگی اجیرن کررکھی تھی۔ جس کے خلاف کراچی، حیدرآباد، سکھر اور بلوچستان میں 35 مقدمات درج تھے اس سے قبل اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل نے بھی سندھ سے عبدالرسول عرف کلیم بھٹو کو گرفتار کیا تھا۔ کراچی سے درجنوں گاڑیاں چھیننے اور چوری کرنے والے عبدالرسول عرف کلیم بھٹو اور اس کے ساتھی سہیل میرانی کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کی سفارش کی گئی تھی۔ کراچی پولیس نے ان دونوں ڈاکوؤں کو گرفتار کرنے کے لیے بہت کوششیں کیں لیکن یہ دونوں مجرم بہت بدمعاش تھے اور پولیس انہیں پکڑ نہ سکی۔

Advertisement

دونوں ڈاکو سکھر کے علاقے نصیر آباد میں واردات کی نیت سے پہنچے تھے کہ اس دوران سکھر پولیس کو اطلاع ملی کہ علاقے میں ایک مشکوک گاڑی گھوم رہی ہے۔ پولیس نے ان کا تعاقب کیا تو ملزمان کی جانب سے پولیس پر فائرنگ شروع کردی گئی اس دوران پولیس کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں دو ڈاکو شدید زخمی ہو گئے اور کچھ دیر بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے جب کہ دوسرے واقعے میں تین ڈاکو روہڑی تھانے کی حدود میں چھپے ہوئے تھے کہ گشت پر مامور پولیس وہاں پہنچی۔ پولیس کو دیکھتے ہی ڈاکوؤں نے فائرنگ شروع کردی۔ اس دوران پولیس کی جانب سے بھی جوابی کارروائی کی گئی تاہم ڈاکوؤں کی فائرنگ سے ہی ان کا ساتھی یوسف ہلاک ہو گیا۔ ڈاکو یوسف جاگیرانی ڈکیتی اور موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں پولیس کو مطلوب تھا۔ پولیس مقابلے کے دوران عدنان اور صدام جاگیرانی زخمی ہوگئے۔ بعد ازاں انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ ایک اور واقعے میں زخمی ہونے والے ڈاکوؤں شکیل، اقرار احمد اور ذوالفقار جونیجو کو بھی پولیس نے اسلحہ سمیت گرفتار کر لیا۔

ایس ایس پی سکھر سنگھار ملک نے کہا کہ ہم نے پولیس ٹیموں کو شہر کی مصروف سڑکوں پر گشت کرنے کی ہدایت کی ہے۔ سکھر سے شہر کی طرف جانے والی لنک سڑکوں پر بھی سخت نگرانی کی جارہی ہے کیوں کہ شہر کے قریب بڑا علاقہ ہے جب کہ شکارپور، خیرپور اور گھوٹکی کے اضلاع سکھر کی سرحد کے ساتھ واقع ہیں تاہم رواں ماہ دوران گشت متعدد جرائم پیشہ افراد اور کچھ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا گیا ہے ۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
پہاڑوں میں چھپی ایک مقدس نشانی
بابا گرونانک کا 556 واں جنم دن، بھارتی سکھ یاتریوں کی ننکانہ صاحب آمد
مفتی تقی عثمانی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر دنیا کے با اثر مسلمانوں کی فہرست میں شامل
27 ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی سے پہلے سینیٹ میں پیش کی جائے، اسحاق ڈار
متنازع ترین نائب امریکی صدر 84 سال کی عمر میں انتقال کر گئے
ایشیا کپ میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی، آئی سی سی نے سزاؤں کا اعلان کر دیا
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر