
برطانوی راج سے برصغیرکی آزادی کے لیے کئی ہزارآزادی پسندوں نے اپنا حصہ ڈالا اور ہیمو کالانی ان میں سے ایک ہیں۔ 21 جنوری کو ایک قابل ذکر لیکن کم معروف آزادی پسند جنگجو کی برسی منائی جاتی ہے۔
ہیمو کالانی 23 مارچ 1923ء کو سندھ کے شہرسکھرکے ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے، جس دن ممتازانقلابی بھگت سنگھ، سکھ دیو اورراج گرو کو غداری کے جرم میں پھانسی دی گئی تھی۔
انہوں نے ’برطانوی راج‘ کے خلاف بغاوت کی لہر کے دوران پرورش پائی اورآزادی سے پہلے کے حالات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ ہیموکالائی نے کم عمری میں ہی مظاہروں اوربرطانوی حکومت مخالف تحریکوں میں حصہ لینا شروع کردیا اور بعض مورخین کے مطابق ان کی عمر 10 سال تھی جب انہوں نے پہلی بار حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لیا اورسیکیورٹی فورسز کی مزاحمت کا بہادری سے مقابلہ کیا۔
ہیمو ایک نوجوان کارکن تھے جو بھگت سنگھ اور گاندھی سے کافی متاثر تھے اور اس کے نتیجے میں انہوں نے ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک میں شامل ہونے سے پہلے ہی ایک متحرک طالب علم رہنما تھے۔ 17 سال کی عمر میں انہوں نے سوراج سینا کی قیادت کی، ایک طلبہ یونین جس نے عوامی بیداری کو پروان چڑھا کربرطانوی حکومت کے تعصب اور ظلم کے خلاف تعلیمی اداروں میں مہم چلائی۔
کچھ عرصے کے بعد ہیموکالائی اوران کے اتحادیوں نے ’برطانوی راج‘ کے خلاف ایک انقلابی تحریک شروع کی، جس کے نتیجے میں پورے برصغیر میں پرتشدد مظاہرے ہوئے، جس سے انسانی جانوں اور ریاستی املاک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا۔انہوں نے اور ان کے پیروکاروں نے گاندھی کی ’ہندوستان چھوڑو‘ تحریک کی حمایت کی، اورزور پکڑتی تحریک کو دبانے کے لیے برطانوی حکومت نے ریلوے ٹریک کے ذریعے فوج اور گولہ بارود سکھر روانہ کیا۔
ہیموکالائی کا مقصد ٹریک کی فش پلیٹس کو ہٹا کر ٹرین کو پٹڑی سے اتارنا تھا، لیکن چونکہ ان کے پاس ضروری آلات کی کمی تھی، اس لیے وہ اپنے منصوبے کو بروقت سرانجام دینے میں ناکام رہے اوربرطانوی حکومت نے ریاست کے خلاف سازش کرنے پر انہیں گرفتار کر لیا۔
گرفتاری کے بعد انہیں اوران کے ساتھیوں پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا۔ حکومتی اہلکار چاہتے تھے کہ وہ اس ’’سازش‘‘ میں شریک اپنے ساتھیوں کے نام بتائیں لیکن وہ شرمناک وحشیانہ تشدد کے باوجود خاموش رہے۔
بالآخر ہیموکالائی اوران کے ساتھیوں کے خلاف ملٹری کورٹ میں مقدمے کی سماعت شروع ہوئی اورعبدالحفیظ پیرزادہ کے والد عبدالستارپیرزادہ ملزم کی جانب سے بطور وکیل پیش ہوئے لیکن ان کا دفاع کرنے میں ناکام رہے کیونکہ برطانوی حکومت چاہتی تھی کہ ہیمو کالائی اوران کے ساتھیوں کو سزائے موت دی جائے۔
پورا برصغیر ہیموکالائی کی حمایت میں کھڑا ہوگیا اور وائسرائے سے رحم کی اپیل کی۔ برطانوی حکومت نے اس شرط پر درخواست قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی کہ ہیموکالائی اپنے اتحادیوں کے نام ظاہر کرے۔ ہیموکالائی کی والدہ جیٹھی بائی نے سکھر جیل میں ان سے ملاقات کی اوران سے حکومت کی شرائط ماننے کی درخواست کی، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔
تاریخ دان ڈاکٹر امیرعباس سومرو لکھتے ہیں کہ ’’جب ہیمو کالائی کو پھانسی کے تختے تک پہنچایا گیا تو انہوں نے اپنے ہاتھ میں ہندوؤں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا پکڑی ہوئی تھی اورسریلی آوازمیں انقلاب اورآزادی کی شاعری گنگنارہے تھے کیونکہ انہیں موت کا کوئی خوف نہیں تھا۔‘‘
20 اور 21 جنوری 1943ء کی درمیانی شب کو سکھرجیل میں ہیموکالائی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے لوگوں کا ہجوم تھا،جنہوں نے تحریک آزادی کے دوران شہادت کو گلے لگایا تھا۔پھانسی کے وقت ان کی عمر صرف 20 برس تھی، اوران کی میراث پاکستان اوربھارت دونوں ملکوں کی صورت میں زندہ ہے۔ دونوں ممالک کے نامور مورخین نے ان کے بارے میں کئی کتابیں اور مضامین لکھے ہیں، اور ان کے نام سے کئی عوامی مقامات اور سڑکیں منسوب ہیں۔
2013ء میں سندھ حکومت نے سکھر میں ایک جیل بیرک کو ان کے نام سے منسوب کیا تھا۔ 80 سال گزرنے کے بعد بھی انہیں ان کی شجاعت کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جس نے ان کے کردار کو امر کر دیا، جیسا کہ سندھ کی ایک مشہورکہاوت میں مذکورہے، جس کا ترجمہ ہے،’’ہیمو کالانی کی طرح بہادر بنو‘‘۔
ہیمو کالائی کا خاندان تقسیم ہند کے وقت بھارت ہجرت کرگیا اورملک کی آزادی کے بعد وہیں آباد ہو گیا۔ بھارت میں 1980ء کی دہائی کے دوران ان کی سوانح حیات پرمبنی فلم ’امرشہید ہیموکالانی‘ سندھی زبان میں بنائی گئی اوراسے عوامی پذیرائی ملی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News