Advertisement
Advertisement
Advertisement
Advertisement

غلط فہمی کا شکارعوام

Now Reading:

غلط فہمی کا شکارعوام

سندھ میں ڈاکوؤں کی کہانی بہت پرانی ہے۔ برطانوی محقق رچرڈ برٹن نے کہا تھا کہ 19 ویں صدی میں سندھ میں تقریباً ایک ہزار ڈاکو تھے۔ تاہم انگریزوں کے دور میں ہندوستان بھر میں آزادی کی تحریکیں چلیں جس کے نتیجے میں انگریزوں نے آزادی پسندوں کو ڈاکو قرار دیا۔
نوآبادیاتی دور میں حُر تحریک کے شرکاء کو بھی ڈاکو قرار دیا گیا اور مذہبی رہنما اور وزیر بچو بادشاہ کو جھول شہر میں سرعام پھانسی دی گئی۔ اسی طرح رحیم ہنگورو کو بھی ڈاکو قرار دیا گیا باوجود اس کے کہ پیر پگارو شاہ مردان شاہ نے رحیم ہنگورو کو کہا تھا کہ وہ ہتھیار ڈال دے لیکن اس نے انکار کر دیا اور گرفتار کر لیا گیا۔ جیل سے فرار ہونے کی کوشش کے دوران وہ جیل کی دیوار کی برقی باڑ سے کرنٹ لگنے سے زخمی ہو گیا۔ بعد میں اسے جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
اس کے بعد غلام حسین وڈھو اور میر لنگھو نے سندھ میں شہرت پائی۔ اسی طرح ایک اور ڈاکو محمد خان صدر ایوب خان کے دور میں توجہ کا مرکز بنا، اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں بھی یہی صورتحال تھی۔
سندھ میں 1984ء سے 1994ء کی دہائی کو ڈاکوؤں کی دہائی کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اگرچہ پاکستانی فوج نے 1992ء میں ڈاکوؤں کے خلاف ایک اہم مہم چلائی جسے ’آپریشن بلیو فاکس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے دوران کچھ ڈاکوؤں کا قلع قمع کیا گیا اور سندھ کے لوگوں نے سکون کا سانس لیا، لیکن فوجی آپریشن ختم ہونے کے بعد ڈاکو واپس لوٹ آئے۔جس کے بعد ڈکیتی اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں معمول بن گئیں۔ تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فوجی آپریشن کے بعد ایک دہائی کے اندر اندر ڈاکوؤں نے سندھ میں 11 ہزار سے زائد افراد کو اغوا کیا اور تقریباً چار ارب روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ اس دس سال کے عرصے میں امریکی ڈالر کی قدر 13 سے 30 روپے کے درمیان رہی۔1995ء کے بعد خیرپور، سکھر، گھوٹکی ڈاکوؤں کے اہم گڑھ  تھے اور عام طور پر ہر رات مسافروں پر حملے کرتے تھے۔
ان دنوں نوجوان لڑکے بھی ڈاکو بننے کے لیے ان علاقوں میں داخل ہوئے، کیونکہ یہ ڈاکو کلچر وسیع اور منافع بخش ہو گیا تھا۔

Advertisement
کشمور، سکھر، گھوٹکی، شکارپور، خیرپور، نوشہرو فیروز، لاڑکانہ اور قمبر شہدادکوٹ کے اضلاع ان ڈاکوؤں سے بھرے ہوئے تھے، ان کی اکثریت شاہ بیلو کے پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر تھی۔شاہ بیلو کا علاقہ سیکڑوں کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس میں سکھر، گھوٹکی اور کشمور کے علاقے شامل ہیں۔ شاہ بیلو میں سڑکوں کی کمی اور چونکہ یہ ایک جنگل (کچا) کا علاقہ ہے اور ڈاکوؤں کے پاس چھپنے کے لیے کافی جگہ ہے، یہ دریائی علاقہ پولیس کے لیے گشت کے لیے ایک مشکل جگہ بنا ہوا ہے۔
جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، تب بھی سندھ بدنام زمانہ ڈاکوؤں کی زد میں تھا۔ ڈاکوؤں کی فہرست میں پارو چانڈیو، صادق گڈانی، نادر جسکانی، میجر کھوسو، نذرو ناریجو، سدو ناریجو، کرنل کھوسو، کمال فقیر شیخ، کمانڈو شیخ، قادری چاچڑ، سلتو شر اور منیر مصرانی وغیرہ شامل تھے۔
ان ڈاکوؤں نے کچے کے مختلف علاقوں میں گروہ بنا رکھے تھے، اگرچہ پولیس نے ان مقابلوں میں بہت کم ڈاکو مارے، تاہم، جھڑپوں کے دوران متعدد پولیس اہلکار اور افسر بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ صورت حال آج تک برقرار ہے۔
ڈاکوؤں کے پاس RR 75 اور مارٹر جیسے جدید ترین ہتھیار ہوتے ہیں جسے ڈاکو اپنی مادری زبان میں ہشتڈو کہتے ہیں۔ پولیس کلاشنکوف، جی تھری رائفلز اور روایتی سب مشین گنوں سے لیس ہے۔
بالائی سندھ کے بدنام ترین ڈاکوؤں میں سے ایک منیر مصرانی ہے۔ سکھر، گھوٹکی، شکارپور، خیرپور اور جیکب آباد سمیت متعدد اضلاع میں منیر مصرانی ڈکیتی اور جرائم کی دیگر متعدد وارداتوں میں ملوث ہے، جن کی مختلف ایف آئی آرز درج ہیں۔ سندھ حکومت نے اس کے سر پر 2کروڑ روپے کا انعام رکھا ہے اور اس رقم کو بڑھا کر 3 کروڑ روپے کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔مصرانی حافظ قرآن اور کچے کی مسجد کے امام ہیں۔ انہیں نعتیں پڑھنے کا بھی شوق ہے اور مدینہ جانے کی خواہش ہے۔
بول نیوز کی ٹیم نے ان کا انٹرویو اس وقت کیا جب وہ شاہ بیلو کے علاقے میں تھے، جسے ڈاکوؤں کی جنت کہا جاتا ہے۔ منیر مصرانی نے کہا کہ ’’ہمارا ڈاکو بننے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن دولت مند اور اچھے تعلقات والے لوگوں نے ہمیں اس صورتحال تک پہنچایا ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’بااثر افراد بے بس دیہاتیوں کے ساتھ بدسلوکی کرتے ہیں اور ان کے خلاف مجرمانہ مقدمات بناتے ہیں۔ پولیس بااثر لوگوں سے پیسے لیتی ہے اور ہم جیسے لوگوں کے ساتھ بدسلوکی کرتی ہے، ان حالات میں ہمارے پاس ہتھیار اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سندھ میں ڈاکوؤں کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ لوگ طاقت ور افراد وڈیروں اور پولیس کے ظلم و ستم کی وجہ سے ڈاکو بنے۔
Advertisement
مصرانی نے مزید کہا، ’’ہم ایسی جگہ کیوں رہ رہے ہیں جہاں نہ سڑک ہے، نہ صحت اور نہ تعلیم؟ ہمارے خلاف زیادہ تر مقدمات جھوٹے ہیں۔ ہم ڈکیتی چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن ہمارے خلاف گھڑے گئے جعلی مجرمانہ مقدمات کی وجہ سے ہم پھنس گئے ہیں۔ اس کے علاوہ، جب بھی پولیس کسی جرم کے مجرموں کو تلاش نہیں کر پاتی ہے تو وہ اس کا الزام مجھ پر لگا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ایف آئی آر میں میرا اور میرے ساتھیوں کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘
سندھ بے شمار قبائل کا گھر ہے اور بین قبائلی عداوت بھی ہے۔ اس دشمنی میں سے کچھ خاندانی رشتوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں، جب کہ دوسری مثالوں میں زرعی زمین کے تنازعات شامل ہیں۔ نتیجتاً لڑائی جھگڑے اور آتشیں ہتھیار استعمال ہوتے ہیں لیکن پولیس قبائلی تنازعات کو حل کرنے کے بجائے ڈاکو کی طرح نمٹاتی ہے۔ ڈکیتی کے حوالے سے بھی یہ مسائل اٹھائے جاتے ہیں۔
’’پولیس ہمارے لوگوں کے مویشی اور ٹریکٹر ضبط کرتی ہے، وہ ہماری عورتوں کو حراست میں لے لیتی ہے، غریبوں کے گھروں کو آگ لگاتی ہے، طاقتور افراد کے حکم پر گاؤں والوں کو مارتی ہے اور بعد ازاں وہ پولیس مقابلوں میں ڈاکوؤں کو مارنے اور ان کے ٹھکانے تباہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پولیس اور طاقت ور افراد کے جبر کے نتیجے میں اب ہم اس میں بہت زیادہ غرق ہو چکے ہیں۔‘‘
مصرانی کا دعویٰ ہے کہ سلطان، جسے سلتو شر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور ان کے گینگ کا ایک رکن ہے، پولیس نے ایک تقریب میں جھگڑے کے دوران قتل کیا، جو کہ ایک جھوٹا پولیس مقابلہ تھا۔ اس واقعے کے بعد کوئی ڈاکو پرامن طریقے سے ہتھیار ڈالنا نہیں چاہتا۔
منیر مصرانی کے ایک اور ساتھی علی شیر دھامیو نے انکشاف کیا کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں شکارپور کے علاقے میں پولیس میں شمولیت اور اس وقت کے ایس ایس پی راجہ اسرار سے تقرری کا لیٹر ملنے کے بعد ان کا کچھ طاقت ور لوگوں سے جھگڑا ہو گیا، اور نتیجتاً وہ ڈاکو بننے پر مجبور ہو گیا۔ وہ اس وقت کچے کے علاقے میں مقیم ہیں۔
علی شیر دھامیو کا دعویٰ ہے کہ وہ اس عمر میں کوئی جرم نہیں کرنا چاہتے اور انہوں نے جو کچھ کیا وہ ان کا ماضی تھا۔ انہوں نے کہا، ’’اب ہمیں ایک ایسے پولیس افسر کی ضرورت ہے جو سچ بولے اور اگر ہمارے لیے اس مجرمانہ دنیا سے نکلنے کا راستہ باقی ہے تو ہمیں جعلی مقابلے میں مارنے کی بجائے قانون کا سامنا کرنے دے۔ ایک ایسا ماحول پیدا کیا جائے جہاں ہم اپنے جرائم پر توبہ کرنے کا انتخاب کر سکیں لیکن ہمارے خلاف بنائے گئے متعدد جعلی مقدمات کے لیے نہیں۔ ان مقدمات کو ختم کر دیا جانا چاہیے۔‘‘
Advertisement
شاہ بیلو کے علاقے کے ڈاکوؤں سے صورتحال دریافت کرنے کے بعد بول نیوز کی ٹیم نے ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی سے رابطہ کیا، جاوید جسکانی نے ویڈیو بیان میں ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے کی وارننگ دی تھی اور ان کی کوششوں سے خیرپور کچے کے علاقے فیض محمد بھنڈو کے چھ ڈاکو جاوید ناریجو، عبدالغفار ناریجو، فیض محمد ناریجو، سراج احمد، رضا محمد ناریجو، اور عبداللطیف ناریجو، جنہیں دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا، نے خود کو بدل کر اپنے جرائم سے توبہ کی۔
ڈی آئی جی سکھر رینج پولیس جاوید جسکانی نے بتایا کہ ’’ہم نے منیر مصرانی اور دیگر چھوٹے بڑے مجرموں سمیت تمام ڈاکوؤں کو یہ وارننگ دی ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور خود کو گرفتاری کے لیے پیش کریں، انہیں پولیس کے ہاتھوں جعلی مقابلے میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ چند روز قبل ضلع خیرپور کے چھ ڈاکو بھی خود پیش ہوئے۔ ہم نے انہیں حراست میں لے کر جیل بھیج دیا جہاں ان پر فوج داری الزامات عائد کیے جائیں گے اور ہم کوئی غیر قانونی اور غیر ضروری مقابلے کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ ہم کوئی غلط کام نہیں کریں گے اور سکھر رینج کے ڈی آئی جی ہونے کے ناطے میں ڈاکوؤں کو ضمانت دیتا ہوں کہ جو بھی ہتھیار ڈالنا چاہے گا اسے میڈیا کے سامنے گرفتار کر کے جیل بھیج دیا جائے گا جہاں انہیں اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے خلاف کوئی نئی کارروائی یا الزامات نہیں لگائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اگر ان کے خلاف کوئی غلط الزام یا کیس ہوتا ہے تو پولیس ان کو خارج کر دے گی۔‘‘
ڈی آئی جی سکھر نے کہا کہ یہ انتہائی مثبت اقدام ہے کہ ڈاکو خود ہی ہتھیار ڈال رہے ہیں اور امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کو تادیبی کارروائی نہیں کرنی پڑے گی اور ہم اپنے فرائض سے باخبر، چوکس اور تیار رہیں گے۔ اس سلسلے میں کسی بھی اقدام کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ ہم ان ڈاکوؤں کو عدالت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور یہی ہماری ترجیح ہے۔
ڈاکو منیر مصرانی اور ڈی آئی جی سکھر جاوید جسکانی کی رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑی سی کوشش سے سندھ حکومت ان ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے پر راضی کر کے مثبت نتائج حاصل کر سکتی ہے اور اس طرح ایک بار پھر امن لوٹ آئے گا اور صوبے کے عوام ایک بار پھر سکون سے رہ سکیں گے۔

Advertisement
Advertisement

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
صدر زرداری کا چین کے ایئرکرافٹ کمپلیکس کا تاریخی دورہ
آئی ایم ایف سمجھ چکاکہ سیلاب کے بعد پاکستان سنگین حالات سے دوچار ہے ، وزیر خزانہ
پاکستان سے ہار کا خوف ! بھارت میں منتر، جادو ٹونہ اور تہمات کا طوفان
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار دوحہ پہنچ گئے
تم جیتو یا ہارو ! آئمہ بیگ کا قومی کرکٹ ٹیم کے نام پیغام
رحیم یار خان، دریائے سندھ میں اونچے درجے کا سیلاب، زمیندارہ بند ٹوٹنے سے دیہاتوں میں تباہی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر