
بلوچستان کے ساحل گڈانی کو دنیا کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ ہونے کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل ہے۔ یہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی شپ بریکنگ انڈسٹری ہے۔
گڈانی میں کاروبار کی منفرد نوعیت کی وجہ سے، اس نے دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔شپ بریکنگ یارڈپورے پاکستان اور بیرون ملک سے سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ وسیع و عریض علاقہ سیکڑوں ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کررہا ہے۔ یہاں تکنیکی عملے سے لے کرمزدوروں تک سب کے لیے ملازمتیں موجود ہیں، جہاز توڑنے کی صنعت بہت بڑی ہے، اور لاتعداد زندگیاں اس سے وابستہ ہیں۔
وسیع رقبہ پرمزدورجہاز توڑنے کے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں۔ کوئی بھی جہاز جس میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے، اسے توڑنے کے لیے وہاں بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاز کا سامان نکال کر بیچ دیا جاتا ہے۔ ٹوٹے ہوئے جہاز سے اسکریپ آئرن کورولنگ ملزاور لوہے کے کارخانوں میں بھیج دیا جاتا ہے، جو بلوچستان، کراچی اور پنجاب سمیت ملک کے مختلف حصوں میں کام کرتے ہیں۔ لوہے کے کارخانے بحری جہازوں کے لیے لوہا بناتے ہیں، جس میں لوہے کی سلاخیں، لوہے کے گرڈزاورتاریں شامل ہیں، جن میں مختلف سائز کی لوہے کی چادریں اوردیگر اشیاء شامل ہیں۔ فرنیچراوردیگر گھریلو اشیاء اعلیٰ معیارکی جہاز کی لکڑی سے تیارکی جاتی ہیں۔ گڈانی شپنگ یارڈ سے سامان ملک کے دیگر حصوں میں لے جانے کے لیے ٹرالراورٹرک استعمال کیے جاتے ہیں۔ چھوٹی گاڑیاں بھی چھوٹے سامان کی نقل و حمل میں مصروف ہیں۔ اس طرح گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت ہموار آپریشن کے لیے ہزاروں افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے۔
عام دنوں میں کراچی سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گڈانی شپنگ یارڈ کے تمام پلاٹس انتہائی مصروف ہوتے ہیں،جہاں ہزاروں مزدورکام کر رہے ہوتے ہیں، کرینیں چل رہی ہوتی ہیں اورسمندر کنارے لائے جانے والے جہازوں کے مختلف حصوں کو کاٹنے کا کام جاری رہتا ہے۔ یہ اپنے آپ میں ایک الگ دنیا کی طرح لگتا ہے، تاہم، یہ دنیا ان دنوں ویران ہے. جہاں کبھی زندگی کی ہلچل مچ رہی ہوتی تھی، وہ ویران پڑا ہے، ورکرزغائب، کام موجود نہیں ہے۔ علاقے میں خاموشی ہے اور مزدوروں کے لیے بنائے گئے چھوٹے بڑے ہوٹل بند ہیں۔ گاڑیوں کی آمدورفت نہیں ہورہی، ہرطرف ویرانی چھائی ہوئی ہے۔ شپ بریکرز کے پلاٹوں کے سامنے چند چوکیدارموجود ہیں۔ چند پلاٹوں سے گزشتہ سال خریدے گئے جہازوں کے پرزوں صاف کیے جا رہے ہیں۔
بھاری وزن ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے والی کرینوں کی مسلسل نقل و حرکت بھی بند ہو گئی ہے، ایسا لگتا ہے کہ گڈانی میں زندگی کا وجود ہی ختم ہو گیا ہے۔ بعض پلاٹوں میں جہاز کے کٹے ہوئے حصوں اور لوہے کی چادروں کو ترتیب سے رکھنے کا کام جاری ہے۔ بول نیوز کی ٹیم دنیا کی دوسری سب سے بڑی شپ بریکنگ انڈسٹری کی ایسی حالت ہونے کی وجوہات جاننے کے لیے گڈانی گئی۔ ٹیم نے پاکستان شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اورصنعت کاردیوان رضوان فاروقی سے ملاقات کی۔ دیوان فاروقی نے شپ بریکنگ انڈسٹری کی سنگین مشکلات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری شپ بریکنگ انڈسٹری ان دنوں مشکل حالات سے گزر رہی ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری دنیا کی دوسری بڑی شپ بریکر انڈسٹری ہے۔ یہاں کام کرنے والے کارکنوں اورتکنیکی عملے کوبھارت اوربنگلہ دیش کے مقابلے میں اچھی تنخواہ ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صنعت میں 25ہزار سے زائد کارکنان اور تکنیکی عملہ کام کرتا ہے۔ جب جہاز گڈانی آتے ہیں تو سارے پلاٹ بھر جاتے ہیں۔ یہ ایک شہرکی طرح لگتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ تیزی آجاتی ہے، لیکن اب کوئی کام نہیں ہے کیونکہ جہازاب اس بندرگاہ پرنہیں آرہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سادہ ہے،گزشتہ تین ماہ سے کوئی جہاز اسکریپنگ کے لیے بندرگاہ پرنہیں لایا گیا، جس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے لیٹر آف کریڈٹ (LCs) کھولنا بند کردیے گئے ہیں۔ اسی لیے ہم نے اسکریپنگ کے لیے کوئی جہاز نہیں خریدا۔
دیوان فاروقی کے مطابق وہاں کام کرنے والے 25ہزار سے زائد کارکن اورتکنیکی عملہ قریبی دیہاتوں کے رہائشی ہیں۔ تاہم وہاں کام کرنے والے کچھ افراد پاکستان کے دیگر علاقوں سے بھی آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بحری جہازاسکریپ کرنے کے لیے گڈانی نہ آنے سے کوئی کام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔ دیوان فاروقی کے مطابق ’’یہ بڑھتی ہوئی بے روزگاری خطرناک ثابت ہوگی کیونکہ ان لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی کام نہیں ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت مختلف محصولات کی مد میں حکومت پاکستان کو سالانہ 15 ارب روپے ادا کرتی ہے، جب کہ مزید ایک ارب روپے سے زائد مختلف قسم کے ٹیکسوں کی مد میں صوبہ بلوچستان کی حکومت کو ادا کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپلائی، روڈ روٹ میں اس صنعت کو ٹیکس کی ادائیگی کی مد میں کوئی سہولت نہیں دی گئی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کسی بھی حادثے کی صورت میں ’’یہاں ابتدائی طبی امداد اورایمبولینسز بھی دستیاب ہیں، ہم زخمی کارکنوں کو فوری اسپتال لے جاتے ہیں اورانہیں ہرقسم کا علاج فراہم کرتے ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ 2017ء میں گڈانی میں پیش آنے والے حادثے میں متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہوئے تھے، جس کا معاوضہ گڈانی شپ بریکرز ایسوسی ایشن نے ادا کیا تھا۔ زخمیوں کی مالی امداد بھی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ ہمارا فرض ہے، اس کام کی نوعیت ایسی ہے کہ حادثے ہو سکتے ہیں، اس لیے ہم تمام حفاظتی اصول اپناتے ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس شپ بریکنگ یارڈ میں کام کرنے والوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے‘۔ ملک میں حالیہ بارشوں نے تباہی مچا دی جس سے گڈانی شپ بریکنگ پلاٹس کی طرف جانے والی سڑکوں کو بھی نقصان پہنچا، جن میں کچھ پل بھی ٹوٹ گئے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت کو گڈانی کی اہمیت کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے، جو کہ ایک بہت بڑا ٹیکس ادا کرنے والا بھی ہے۔ دیوان فاروقی کے مطابق ’’حکومت کواب لیٹر آف کریڈٹ کھولنا چاہیے۔ ہم آج جہاز خرید لیں گے لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ انہوں نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ حکومت کیا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوہے اوراسٹیل کی قیمتوں میں ہزاروں روپے فی ٹن اضافہ ہوا ہے۔ اگر ہمارے پاس بحری جہاز ٹوٹیں گے تو ہم رولنگ ملز، اسٹیل ملز اورلوہے کے دیگر کارخانوں کو فروخت کرسکیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ خام مال فراہم کرنے سے شپ بریکنگ انڈسٹری کو بھی فائدہ پہنچے گا، رولنگ ملز اور لوہے کے کارخانے کے مالکان بھی کچھ منافع کما سکیں گے۔ مزدوروں کو دوبارہ ملازمت دی جائے گی اور حکومت کو اربوں روپے ٹیکس کی مد میں ملیں گے۔ پاکستان شپ بریکرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین نے کہا کہ جب ہم ٹوٹنے کے لیے ایک لاوارث جہاز خریدتے ہیں اور اسے شپ یارڈ میں لاتے ہیں توحکومت کو پورا ٹیکس ایڈوانس مل جاتا ہے، حالانکہ جہاز توڑنے والے اسکریپ کا سامان بیچ کر پیسے کماتے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جو سب کو مصروف رکھتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ کام کے دوران نقل و حمل کے مقاصد کے لیے گاڑیوں کی آمدورفت رہتی ہے۔ آج کل شپ بریکنگ یارڈ میں کام نہ ہونے کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔
دیوان رضوان فاروقی نے کہا کہ حکومت کو گڈانی شپ بریکنگ انڈسٹری کو درپیش مسائل پر توجہ دینے اور ایل سیز کھولنے کی ضرورت ہے۔ اس سے گڈانی شپنگ یارڈ میں روزگار ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو گڈانی شپنگ یارڈ آنے اورجانے والی سڑکوں کی تعمیراورمرمت کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نے ان مسائل پر بروقت توجہ نہ دی تو حالات مزید خراب ہوں گے۔
دیوان رضوان فاروقی نے جو خدشات اٹھائے ہیں وہ منطقی ہیں۔ کیا ایل سی کو کھولا جائے گا تاکہ یہ صنعت دوبارہ پروان چڑھے، یا یہ مستقبل میں بھی ایک ویران تصویر بنی رہے گی، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News