
یونیسکو کے ادبی شہرِلاہور میں آرٹ کونسل آف پاکستان، کراچی (اے سی پی) کے زیرِ اہتمام پہلے سہ روزہ ادبی میلے نے سیاسی محاذوں پر گہری تقسیم کا شکار عوام کے لیے تفریح کا سامان فراہم کیا۔
سیاسی تقسیم نے ہمارے معاشرے کے سماجی تانے بانے کو بھی متاثر کیا ہے۔ جب سے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو گزشتہ برس اپریل میں اعتماد کے ووٹ کے بعد معزول کیا گیا،تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس یادگار ثقافتی تقریب کے روح رواں احمد شاہ ایسے پراگندہ ماحول میں کامیابی کے ساتھ منعقد کرنے میں کامیاب رہے۔
منتظمین کے مطابق لاہور میں الحمرا آرٹس کونسل اور کراچی آرٹس کونسل کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ادبی میلے میں تقریباً 70 ہزار افراد نے شرکت کی، جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔
معروف مال روڈپرواقع الحمرا کو برقی قمقموں، بڑے پینا فلیکسزاورمعروف ادبی و فنی شخصیات کے پورٹریٹ سے سجایا گیا تھا۔
ادبی میلے میں نوجوانوں کو سرگرمی سے شامل کرنے کے لیے لاہور کی یونیورسٹیوں اور کالجوں نے حصہ لیا، میلہ تین روز تک جاری رہا اور الحمرا آرٹ سنٹر کے ہالز میں ایک ساتھ چار سیشنز منعقد ہوئے۔ تمام مشہور شخصیات کے سیشن اور کنسرٹ عوام کے لیے بلامعاوضہ تھے۔
گزشتہ 15 سال سے احمد شاہ کراچی میں آرٹس کونسل آف پاکستان کے بطور صدر خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور ساحلی شہر میں بین الاقوامی اردو کانفرنس کی کامیابی سے میزبانی کر چکے ہیں۔احمد شاہ اس ثقافتی پروگرام کو گوادر، مظفرآباد، گلگت، پشاور اور اسلام آباد میں لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔علاوزہ ازیں ، ان کا اسے امریکہ لے جانے کا بھی ارادہ ہے، جہاں یہ میلہ چار شہروں میں منعقد کیا جائے گا۔
احمد شاہ نے فون پربول نیوز کو بتایا کہ’’اس تقریب پر شاندار ردعمل ملا ہے۔ نوجوانوں کی موجودگی نے عملا دلوں کے شہر کو جگمگا دیا۔ تینوں دن ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ تھا، جس میں موسیقی، شاعری، مباحثہ، ادب، سیاست، صحافت، اور اسی طرح امختلف شعبوں جیسے فنون لطیفہ کی سرکردہ شخصیات کے ساتھ بات چیت شامل تھی۔‘‘
احمد شاہ نے کہا کہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیش نظر ایسی تقریب ضروری تھی۔ انہوں نے کہا کہ ثقافت جتنا طاقتور کوئی اور ہتھیار نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملک سیاسی طور پر منقسم ہے اور اپنے صوبوں کو فن اور ثقافت کے ذریعے جوڑنے کی بہت ضرورت ہے، جو کہ میلے کا بنیادی مقصد تھا۔
افتخار عارف، مستنصر حسین تارڑ، انور مقصود، سلیمہ ہاشمی، کشور ناہید، عطاالحق قاسمی، حامد میر، سہیل وڑائچ، شان، عاصمہ شیرازی، بشریٰ انصاری، سہیل احمد، نور الہٰیٰ شاہ سمیت نامور ادیب، شاعر اور دانشور۔ اس موقع پر اصغر ندیم سید اور دیگر نے خطاب کیا۔
میلے کے افتتاحی دن مقررین میں معروف شاعر امجد اسلام امجد کا نام بھی شامل تھا، جو بدقسمتی سے اسی دن انتقال کر گئے۔ افتتاحی تقریب میں ان کی روح کے ایصال ثواب کے لیے خصوصی دعا بھی کی گئی۔
اردو کے معروف شاعر افتخار عارف نےمرحوم شاعرامجد اسلام امجد مرحوم کے ساتھ ان کی 50 سالہ رفاقت کے حوالے سے بات کی۔ انہوں نے امجد اسلام امجد کو ’’ملک کی مقبول ترین ادبی شخصیات میں سے ایک‘‘ کے طور پر بیان کیا، جنہوں نے شاعری اور اسکرین رائٹنگ میں بہت بڑا حصہ ڈالا۔
موجودہ دور کے ایک اور لیجنڈ اور معروف ادیب و مزاح نگار انور مقصود نے بھی امجد اسلام امجد کو زبردست خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم شاعر علامہ اقبال، فیض احمد فیض، ناصر کاظمی، میراجی، اشفاق احمد اور بشید احمد جیسے عظیم ادبی شخصیات کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔
انور مقصود نے شرکاء سے کھچا کھچ بھرے ہال کو بتایا کہ جب کہ اس وقت ملک کے حالات سنگین ہیں، پھر بھی امید باقی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’’اردو کا وجود لاہور کی وجہ سے ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ احمد شاہ نے اس میلے کے انعقاد کے لیے بہت محنت کی ہے اور ادب میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔
ہفتہ بھر (10سے12 فروری)، پنڈال توانائی اور جوش سے بھرا رہا۔ یہاں تک کہ الحمرا لان اور برنی گارڈن میں بیٹھنے کے انتظامات کیے گئے، جہاں کنسرٹ کے اسٹیج بنائے گئے تھے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد بک اسٹالز سے رجوع کیا، اور انواع و اقسام کے کھانوں نے بھی انہیں اپنی طرف متوجہ کیا۔
پشاور سے تعلق رکھنے والے پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم شمشیر خان نے منتظمین کی کوششوں کی تعریف کی اور متعلقہ فریقین پر زور دیا کہ وہ ملک بھر میں اسی طرح کی تقریبات منعقد کریں۔ بول نیوز کے ساتھ بات چیت میں انہوں نے کہا کہ ایسے تمام فورمز پر چھوٹے صوبوں جیسے خیبر پختونخوا (کے پی) اور بلوچستان کی نمائندگی شامل کی جانی چاہیے تاکہ لوگ بالخصوص پنجاب میں اپنے لوگوں کو سن سکیں۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی عنبرین پنجاب یونیورسٹی کی طالبہ ہیں جو تقریب میں صرف انور مقصود کو سننے آئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ ’’میں ان کے (انور مقصود) کی حس مزاح سے لطف اندوز ہوتی ہوں۔ کوئٹہ میں ہمیں انہیں سننے کا زیادہ موقع نہیں ملتا ، اس لیے میں نے ہفتے کے آخر میں اپنے والدین سے ملنے نہیں کئی،بلکہ، میں نے افسانوی مصنف سے ملنے کے لیے لاہور میں رہنے کا انتخاب کیا۔‘‘
سینئر صحافی حامد میر کے مطابق ملک کو حالیہ برسوں میں غیر اعلانیہ سنسر شپ کا سامنا ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ میلے کے آئندہ ایڈیشن میں بلوچستان اور کے پی کے کی شخصیات کو مدعو کیا جائے، کیونکہ لاہور ملک کا دل ہے۔بول نیوز سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کے اجتماعات سے اس ملک کے نوجوانوں کو بہت زیادہ خوشی ملتی ہے، جس سے وہ آزادانہ اظہار رائے کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے اجتماعات نوجوانوں کو اپنے سیاسی عدم اطمینان کا اظہار کرنے کے قابل بناتے ہیں جو ان کے دل و دماغ میں موجود ہے۔ صحافی نے کہاکہ ’’ہفتہ بھر لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی، جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔
احمد شاہ نےکہا کہ’’میں نے اس میلے کا آغاز لاہور سےکیا ہے کیونکہ یہ شہر آرٹ اور کلچر کا مرکز رہا ہے، اور لوگ دہلی اور چندی گڑھ سے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے تھے۔لاہور وہ شہر ہے جہاں قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی، نیز یہاں علامہ اقبال کا گھر ہے۔ یہ کم از کم ایک ہزار سال پرانا شہر ہے اور گزشتہ تین صدیوں سے اردو کا مرکز ہے، اسی لیے اس شہر سے اس میلے کا آغاز کیا گیا۔‘‘ احمد شاہ نے درخواست کی کہ’’چونکہ میرا مقصد ملک میں ثقافتی تقریبات کا احیاء کرنا ہے، میں اس کی پیشکش کرنے والی کسی بھی حکومت سے فنڈنگ قبول کروں گا۔ خدا کے لیے یہ ایک قومی خدمت ہے۔’’
عزیزی کے نام سے معروف سہیل احمد نے میلے میں شرکاء کو بتایا کہ آرٹس کونسلز اور ثقافتی ادارے ملک میں فن اور ثقافت کے فروغ کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہے۔ انہوں نے نوجوانوں کو خبردار کیا کہ سوشل میڈیا پر زیادہ سے زیادہ فالوورز حاصل کرنے کیلئے وہ اخلاقیات کو نظر انداز نہ کریں ۔
علاوہ ازیں ،معروف فنکارہ بشریٰ انصاری نے اپنے بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے ہمراہ ’’احمد بشیر کا کنبہ‘‘ نامی سیشن کی قیادت کی، جن میں نیلم احمد بشیر، اسماء عباس، زارا نور عباس اور احمد عباس بطور پینلسٹ شامل تھے۔ انہوں نے ایک شرکاء سے بھرے ہال سے اپنے مرحوم والد احمد بشیر اور ملک کے اردو ادب میں ان کے تعاون کے بارے میں بات کی۔
’لاہور پور کمال‘ سیشن جس میں نیئر علی دادا، سلیمہ ہاشمی، یوسف صلاح الدین اور کامران لاشاری شامل تھے، نے لاہور کی تاریخ اور ثقافت پر بھی روشنی ڈالی۔
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News