
اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے بنائی گئی حکومتی کمیٹی کے سربراہ اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ ناممکن سی بات ہے۔
اسلام آباد میں حکومتی کمیٹی مذاکراتی ٹیم کی جانب سے پریس کانفرنس کی گئی، جس میں وزیردفاع پرویز خٹک نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن کا وزیراعظم سے استعفی مانگنے کا مطلب ہے کہ وہ اسلام آباد پرچڑھائی کرنا چاہتے ہیں۔ ہم تمام اپوزیشن جماعتوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ آکر بات کریں کیونکہ اگر آپ کے پاس کوئی مسئلہ، کوئی مطالبہ ہے تو بات کریں، ملک میں جمہوریت ہے جب میز پر بیٹھیں گے تو بات ہوگی تاہم اگر اپنے مطالبات سامنے نہیں لائیں گے تو پھر افراتفری ہوگی۔
وزیر دفاع نے کہا کہ جب ہم نے اسلام آباد کی طرف مارچ کیا تھا تو ہمارے پاس ایک موقف تھا ایسے ہی ہم نے مارچ نہیں کردیا تھا۔ ہم اس وقت صرف زبانی بات نہیں کررہے تھے بلکہ پاناما کا معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا، جس پر ہم نے سب سے درخواست کی کہ اس پر تحقیقات کی جائے لیکن کسی نے ہماری بات نہیں سنی، تاہم جب پاناما کااننا معاملہ ہوا تو بھی ہم چھپے نہیں ہم نے حکومتی لوگوں سے بات کی۔
پرویز خٹک کا کہنا تھا کہ اگر آپ بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو پھر جو افراتفری پھیلے گی، ملک کو نقصان پہنچے گا تو پھر ذمہ داری اُن پر ہے، پھر ہم سے کوئی گلا نہ کرے کیونکہ اس کے بعد حکومت نے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں اور پھر سب کو برداشت کرنا پڑے گا۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہمیں پاکستان کی فکر ہے، اگر کسی کی زندگی کو نقصان پہنچا، کاروبار خراب ہوا تو اس کا ازالہ کون کرے گا؟، ہم نے اپنے تمام کارڈز کھول دیے ہیں، اگر کل کو کچھ ہوا تو پھر کہا جائے گا کہ حکومت یہ کر رہی لیکن حکومت نے وہی کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہوگا، حکومت نے وہی فیصلے کرنے ہیں جس سے ڈیڈلاک نہ آئے اور کسی کی جان و مال کو نقصان نہ پہنچے، اگر یہ لوگ نہیں رکیں گے تو پھر حکومت اپنی رٹ قائم کرے گی۔
حکومتی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جو معاملہ پاکستان کے حق میں ہوگا ہم اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں لیکن جو یہ سمجھتا ہے کہ ہم نے گھبرا کر کمیٹی بنائی تو وہ غلط فہمی میں نہ رہے یہ جمہوریت کی روایت ہے کہ میز پر ہی بات ہوتی ہے اور ہم جمہوری لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومت صرف عمران خان نہیں بلکہ ایک ریاست ہے اور اگر کوئی اس نظام کو توڑنا چاہتا ہے تو پھر جواب ملے گا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر بھارتی ٹی وی چینلز دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور پاکستان میں افراتفری پھیل گئی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہ اگر کوئی بات ہی نہیں کرتا تو اس کا مطلب ایجنڈا کچھ اور ہے۔
مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو پاکستان کے لیے سوچنا چاہیے، اگر ان کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستان سے محبت ہے تو پھر بیٹھ کر بات کرنی پڑے گی لیکن اگر ایجنڈا افراتفری پھیلانا، ملک کو پیچھے لے جانے کا ہےتو یہ پھر بات نہیں کریں گے۔
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم نے سینئر لوگوں کی ایک کمیٹی بنائی ہے، جس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کو کیوں شامل کیا، تو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اس معاملے کو سنجیدہ لینا چاہتے ہیں اور اسی لیے سینئر لوگوں کو شامل کیا ہے۔
انہوں نے ذرائع ابلاغ کے توسط سے ملک کی تمام جماعتوں سے اپیل کی کہ اگر ملک کے ہمدرد ہیں اور پاکستان سے محبت ہیں تو بیٹھ کر بات کریں، اگر آپ کا کوئی مطالبہ ہے تو سامنے رکھیں ہم خیرمقدم کریں گے۔
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت یہ دیکھا جائے کہ ملک کے حالات کیسے ہیں، کشمیر کا معاملہ سب کے سامنے ہے لیکن اس وجہ سے کشمیر کا معاملہ پیچھے چلا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کشمیر کے معاملے کو دبانے کے لیے یہ ایجنڈا بنایا گیا ہے، ہم نے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام، عوامی نیشنل پارٹی کے سینئر رہنماؤں سے بات کی اور انہیں اپنا پیغام پہنچایا کہ آکر بات کریں اور مجھے امید ہے کہ جو بھی معاملہ ہوگا بیٹھ کر بات کی جائے گی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News