اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف صدارتی ریفرنس کا معاملہ۔ سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریفرنس پر کونسل کی کارروائی کے خلاف نئی آئینی درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے۔ عدالت نے قاضی فائز عیسی کے وکیل سے گزارشات کے نکات بھی طلب کر لیے۔
سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کیخلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر کی درخواستوں پر سماعت جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بنچ نے کی۔ منیر اے ملک نے اپنے دلائل میں کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس پر نظر ثانی درخواستیں مارچ میں دائر کی گئیں۔ دس اپریل 2019 کو صحافی وحید ڈوگر نے ایسٹ ریکوری یونٹ کو خط لکھا جس میں قاضی فائز عیسیٰ کی کسی بھی جائیداد کا ذکر نہیں۔ وحید ڈوگر نے لندن کی جائیداد کے بارے میں آن لائن سرچ کر کے دستاویز سامنے رکھیں۔ وحید ڈوگر نے الزام لگائے کہ قاضی فائز عیسیٰ کی جائیداد لندن میں ہے جو انہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔ اسی صحافی نے جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں، ایسٹ ریکوری یونٹ کو بتایا گیا کہ کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے لیکن اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیا گیا۔ ایسٹ ریکوری یونٹ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ وحید ڈوگر نے لندن لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی ایک کاپی فراہم کی ہے اور اسی بنیاد پر آٹھ مئی کو ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایک خط لکھا جس میں جج کی جائیداد کی بارے میں ذکر ہے۔ دس مئی کو ایف آئی اے کی ایسٹ ریکوری یونٹ والوں سے میٹنگ ہوئی۔ جس میں درخواست گزار کی اہلیہ کا نام اور اسپین کی شہریت سامنے آئی۔
منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ شکایت وصولی،ثبوتوں کا اکٹھا کیا جانا اور ریفرنس فائل کرنا مخلتف اوقات میں مرحلہ وار کئے گئے، ڈوگر ایک جعلی شکایت کنندہ ہے اور وفاق نے تاحال اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت بھی نہیں بتائی۔ جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحافی وحید ڈوگر کو ایف آئی اے اور ایف بی آر نے تمام معلومات فراہم کیں۔
دوران سماعت جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے موکل نے اپنی اہلیہ کو کبھی رقم تحفے میں دی، جس پر وکیل نے کہا کہ معلوم کر کے عدالت کو آگاہ کریں گے، سماعت کے دوران، جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ عدالت کیس میں صرف بنیادی ایشوز پر توجہ مرکوز رکھے گی کرے گی ، درخواستیں زیادہ ہیں وکلا دلائل قانونی نکات تک محدود رکھیں۔
عدالت نے کونسل کی کاروائی کے خلاف نئی آئینی درخواستوں پر فریقین کو نوٹس جاری کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت کل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔