
سنگین غداری کیس میں اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویزمشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ رجسٹرار خصوصی عدالت رائو جبارنے تفصیلی فیصلہ پرویزمشرف کے نمائندےکے حوالے کردیا۔
خصوصی عدالت کا تفصیلی فیصلہ 179 کے قریب صحفات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پرویزمشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ایمرجنسی لگائی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیاکہ سپریم کورٹ کے 15 ججوں کو برطرف کیا گیااس کے علاوہ صوبائی ہائیکورٹس کے 56 ججز کو بھی برطرف کیا گیا،اس وقت کے چیف جسٹس کو گھر پر نظر بند کیا گیا۔
تفصیلی فیصلے کےمطابق 26 جون 2013 کو اس وقت کے وزیراعظم نے ایف آئی اے کو سنگین غداری کی تحقیقات کی ہدایت کی جس کے بعدایف آئی اے کی ٹیم نے 16 نومبر 2013 کو اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ بعد ازاں 13 دسمبر 2013 کوعدالت میں درخواست دائر کی گئی۔
تفصیلی فیصلے میں کہاگیا کہ پرویزمشرف کومفرور کرانے میں ملوث افراد کو قانون میں دائرے میں لایا جائے اوران کے کرمنل اقدام کی تفتیش کی جائے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق اس کیس کے حقائق دستاویزی ہیں اوردستاویزات جرم ثابت کرتی ہیں، آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے، استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے۔
فیصلے میں کہاگیاکہ سنگین غداری کیس 2013 میں شروع ہوکر چھ سال بعد ختم ہوا، پرویز مشرف کو انکے حق سے بھی زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا گیا۔
جسٹس نذراکبرکا فیصلےسےاختلاف
جسٹس نذر اکبر نے پرویز مشرف کو بری کر دیا۔ ان کے مطابق اختلافی نوٹ میں لکھا استغاثہ اپنا
کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
جسٹس وقاراحمد، جسٹس شاہد کریم کاسزائےموت کافیصلہ
تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیاہے اور کہاہے کہ جمع کرائےگئےدستاویزات واضح ہیں کہ ملزم نے جرم کیا،اگرپھانسی سے قبل مشرف فوت ہوجاتے ہیں تو ان کی لاش کو ڈی چوک لایا جائے۔
عدالتی فیصلے میں کہاگیا کہ ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں،ملزم کو ہر الزام پر علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔
تفصیلی فیصلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مشرف کو گرفتار کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔
گزشتہ سماعت پر عدالت نےمختصر فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدرنے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا اور ان پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوتا ہے۔
عدالتی فیصلےمیں سابق صدرپرویزمشرف کوججزکونظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترامیم، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اورغیر آئینی پی سی او جاری کرنے کے آئین شکنی کے جرائم ثابت ہوئے۔
جسٹس وقاراحمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کی تھی۔ بینچ میں جسٹس شاہد کریم اور جسٹس نذر اکبر بھی شامل تھے۔
تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نظر محمد اکبر نے اس سے اختلاف کیا۔
سنگین غداری کیس، پرویزمشرف کو سزائےموت کاحکم
حکومت کی طرف سے پراسیکیوٹرعلی ضیاء باجوہ جب کہ سابق صدرپرویزمشرف کی طرف سے سلمان صفدر اور رضا بشیر بطور وکیل عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پرحکومتی وکیل نے سنگین غداری کیس میں شوکت عزیز، عبدالحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
علی ضیاء باجوہ نےمؤقف اپنایا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو بھی ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔
جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ تین افراد کو ملزم بنایا تو حکومت سابق کابینہ اور کورکمانڈوز کو بھی ملزم بنانے کی درخواست لے آئے گی۔ عدالت کی اجازت کے بغیر کوئی نئی درخواست نہیں آسکتی۔
بعد ازاں خصوصی بینچ کے رکن نے حکومتی وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آپ نے مزید کسی کو ملزم بنانا ہے تو نیا مقدمہ دائر کر دیں، ہم آپ کی درخواست مسترد کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ پرویزمشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین پامال کیا، پرویز مشرف سزا کے مرتکب ہیں۔
تین رکنی بینچ میں سے دو ججز نے سزائے موت کے فیصلے کی حمایت کی جب کہ ایک جج نے اس سے اختلاف کیا۔
یاد رہے کہ خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی تھی جس میں پرویز مشرف پر31 مارچ 2014 کو عدالت نے فرد جرم عائد کی تھی۔
خصوصی عدالت نے 19 جون، 2016 کو پرویزمشرف کو مفرور قرار دیاتھا جس کے بعدخصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی۔
مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کاپس منظر
سابق صدرپاکستان پرویز مشرف کیخلاف مسلم لیگ (ن) کی حکومت نےآئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔
مقدمے کی رو سے پرویز مشرف پربحیثیت آرمی چیف 3نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کرکے ایمرجنسی لگانےکے اقدام کوغیر آئینی قرار دیا گیا۔
سنگین غداری کیس کی سماعت 6سال کے عرصہ تک چلتی رہیں، مقدمے میں اب تک 100 سے زائد سماعتیں ہوئیں جب کہ اس دوران 4 جج تبدیل ہوئے۔
عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔
بعد ازاں مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔
2016 میں عدالتی حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد سابق صدر ملک سے باہر چلے گئے ۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی جس کے دوران استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام شامل کرنے کی درخواست عدالت نے مسترد کردی۔
استغاثہ کی جانب سے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامدکو شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News