Advertisement
Advertisement
Advertisement

سعادت حسن منٹو – جس کا نام لوحِ جہاں پر مکرر نہیں تھا

Now Reading:

سعادت حسن منٹو – جس کا نام لوحِ جہاں پر مکرر نہیں تھا
سعادت حسن منٹو

سعادت حسن منٹو کو خاک کی چادر اوڑھ کر اس دنیا سے روٹھے 65 برس بیت چکے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ منٹو کو پڑھ سکیں یا شاید یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہم فکری سطح پر منٹو کے دورسے بھی نیچے گرچکے ہیں کہ کم از کم منٹو لکھتا تھا تو پڑھا تو جاتا تھا‘ آج کے دور میں کسی منٹو کے لیے گنجائش ہی نہیں ہے۔

اردو کے کلاسک ادیب اور صاحب اسلوب افسانہ نویس سعادت حسن منٹو منٹو نے جب اپنے دور میں معاشرے کی ننگی سچائیوں کو افسانوں کا موضوع بنایا تو اخلاقیات کے نام نہاد علم بردار پریشانی کا شکار ہو گئے اور ان کے خلاف محاذ بنا لیا۔

اس منفرد اور بے مثال افسانہ نگار کے قلم کی کاٹ کے سامنے منافقانہ روش رکھنے والے سماج کے اخلاق کے نام نہاد محافظ نہیں ٹک سکے، منٹو کی اس روش کے خلاف یہی بغاوت ان کی شہرت کا باعث بنی۔

کشمیری نسل کا یہ خوب صورت، فیشن ایبل، صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والا مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والا یہ افسانہ نگار ہم عصر ادیبوں میں نمایاں شخصیت کا مالک تھا لیکن پھر انتہائی کسمپرسی کی حالت میں، دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گِھر کر محض تینتالیس سال کی عمرمیں اس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔

منٹو 11 مئی 1912کو موضع سمبرالہ، ضلع لدھیانہ میں پیدا ہو ئے۔ ان کے والد لدھیانہ کی کسی تحصیل میں تعینات تھے- دوست انہیں ٹامی کے نام سے پکارتے تھے ۔ وہ اپنے گھر میں ایک ڈرا سہما ہوا بچہ تھے جو سوتیلے بہن بھائیوں کی موجودگی اور والد کی سختی کی وجہ سے اپنا آپ ظاہر نہ کر سکتا تھا۔ ان کی والدہ ان کی طرف دار تھیں۔ وہ ابتدا ہی سے اسکول کی تعلیم کی طرف مائل نہیں تھے۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر میں ہوئی۔ 1921ء میں اسے ایم اے او مڈل اسکول میں چوتھی جماعت میں داخل کرایا گيا۔ ان کا تعلیمی کریئر حوصلہ افزا نہیں تھا۔ میٹرک کے امتحان میں تین مرتبہ فیل ہونے کے بعد انہوں نے 1931میں یہ امتحان پاس کیا تھا۔ جس کے بعد انہوں نے ہندو سبھا کالج میں ایف اے میں داخلہ لیا لیکن اسے چھوڑ کر، ایم او کالج میں سال دوم میں داخلہ لے لیا- انہوں نے انسانی نفسیات کو اپنا موضوع بنایا۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بہترین افسانے تخلیق کیے۔ جن میں ٹوبہ ٹیک سنگھ، کھول دو، ٹھنڈا گوشت، دھواں، بو شامل ہیں۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے اور خاکے اور ڈرامے شائع ہو چکے ہیں۔ کثرتِ شراب نوشی کی وجہ سے 18 جنوری 1955ء ان کا انتقال ہوا۔

Advertisement

منٹو کا قلم مخصوص طور پر تحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انھیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت و رسوائی سے بھی دوچار کیا۔ معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پر جو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک ناقابل فراموش داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی سرجری کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر، دلالوں پر اور انسانی فطرت پر قلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جا سکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پر ابھارا جو ہند و پاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پر گناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل انسانی حقوق کی پامالی رہا اور مزید متنازع فیہ موضوعات پر کھل کر قلم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بار انھیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگر قانون انھیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریر گھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں۔‘‘

ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد، لاؤڈ اسپیکر، ٹھنڈا گوشت، کھول دو، گنجے فرشتے، شکاری عورتیں، نمرود کی خدائی، کالی شلوار، بلاؤز اور یزید بے پناہ مقبول ہیں۔

اپنی عمر کے آخری سات برسوں میں منٹو دی مال لاہور پر واقع بلڈنگ دیال سنگھ منشن میں مقیم رہے، جہاں اپنی زندگی کا آخری دور انھوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثر ہو چکا تھا اور آخر کار 18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کو تاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ بن گیا۔

سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پر حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شایع کیا تھا۔

Advertisement

منٹو نے اپنی لوح ِ قبر پر کتبے کے لیے جو عبار ت تجویز کی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ ’’ یہاں سعادت حسن منٹو دفن ہے ، اس کے سینے میں فنِ افسانہ نگاری کے تمام اسرارو رموز دفن ہیں۔وہ اب بھی منوں مٹی کے نیچے سوچ رہا ہے کہ وہ بڑا افسانہ نگار ہے یا خدا‘‘۔ تاہم یہ عبارت ان کی قبر پر درج نہیں کی گئی بلکہ بعد میں ان ہی کی تجویز کردہ ایک اور عبارت لوح ِقبر پر لکھی گئی جو کچھ یوں ہے کہ’’ یہ لوح سعادت حسن منٹو کی قبر کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوح ِ جہاں پر مکرر نہیں تھا‘‘۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بحیرہ عرب کا سمندری طوفان شکتی میں تبدیل، کراچی سمیت کئی اضلاع میں الرٹ جاری
جے ڈی سی کے ظفر عباس سے 14 کروڑ کا ماہانہ بھتہ مانگنے والا گروہ پکڑا گیا
بیانات نہیں، عملی اقدامات سے ہی غزہ میں امن آئے گا، اسحاق ڈار
پنجاب کا کونا کونا چمکائیں گے، صرف لاہور نہیں، ہر گاؤں ترقی کرے گا، مریم نواز
بحیرہ عرب میں موجود سسٹم شدت اختیار کرگیا، کراچی سمیت سندھ میں ہلکی بارش کا امکان
سرکاری حج اسکیم؛ حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی کا آج سے آغاز
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر