 
                                                                              پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے لینڈ اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق کراچی ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( کے ڈی اے )کے پاس ” کے ڈی اے اسکیم نمبر 36 ” کی کھربوں روپے کی 2000 ایکڑ اراضی کی لیز ہی موجود نہیں ہے یعنی کے ڈی اے اس زمین کی قانونی مالک ہی نہیں ہے ۔
لہذا کے ڈی اے نے جن افراد ، اداروں اور بلڈرز کو یہ زمین فروخت کی ہے ، اس کی بھی قانونی حیثیت نہیں ہے ۔
کے ڈی اے نے ملٹری اسٹیٹ آفس کو بھی زمین فروخت کی حالانکہ خود کے ڈی اے کے پاس زمین کی لیز نہیں تھی۔
ملٹری اسٹیٹ آفیسر نے زرعی اراضی کے بدلے یہ زمین نہ صرف بلڈرز کو دے دی بلکہ فیصل کنٹونمنٹ بورڈ نے انہیں کمرشل عمارتیں بنانے کا بھی این او سی دے دیا۔

واضح رہے کہ اسکیم 36 کی اراضی پر گلستان جوہر اور دیگر آبادیاں قائم ہیں ۔
اس امر کا انکشاف سندھ ہائیکورٹ میں دائر مقدمہ نمبر 2137/2020 کی سماعت کے دوران پیش کردہ شواہد سے ہوا ہے ۔
عدالت نے اس مقدمے میں ناظر تعینات کر دیا ہے اور فریقین کو حکم دیا ہے کہ اگر وہ زمین کی ملکیت کے دعوے دار ہیں تو دستاویزی ثبوت لے کر آئیں ۔
اس میگا لینڈ اسکینڈل کے بارے میں چشم کشا انکشافات اس وقت ہوئے ، جب جوہر چورنگی کے قریب تقریبا 9 ایکڑ انتہائی قیمتی اراضی کا تنازعہ مقدمے کی صورت میں سندھ ہائیکورٹ میں سامنے آیا ۔
مقدمے کی تفصیلات کے مطابق منیر سلطان ، منظور روفی اور حفیظ بٹ نامی بلڈرز نے وہاں پلازے اور شاپنگ مال تعمیر کیے ہیں ۔
منیر میگا مال ، روفی شاپنگ مال اور بلیز پروجیکٹ وہاں تعمیر ہو چکے ہیں جبکہ فلک ناز سمفونی نامی منصوبے پر کام ہو رہا ہے ۔
فاضل سندھ ہائیکوٹ نے فلک ناز سمفونی منصوبے پر کام روکنے اور بکنگ نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔

مقدمے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا بلڈرز کو زمین ملٹری اسٹیٹ آفیسر نے زرعی زمین کے بدلے میں دے دی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ زمین ’ایگریکلچرل ایکسچینج ڈیڈ ‘کے ذریعہ دی گئی ۔
یعنی بلڈرز نے ملٹری اسٹیٹ آفس کو کہیں زرعی زمین دی اور ملٹری اسٹیٹ آفس نے اس کے بدلے انہیں مذکورہ زمین دی ، جس کی قانونی حیثیت بھی زرعی زمین کی ہی ہو گی ۔
اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ فیصل کنٹونمنٹ نے بلڈرز کو اس زرعی زمین پر کمرشل پلازے اور شاپنگ مال تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ۔
مقدمے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ، جو سول پٹیشن نمبر 397 کے اور 401 کے / 2017 میں 26 جولائی 2018 کو دیا گیا ۔

فیصلے میں یہ قرار دیا گیا کہ کنٹونمنٹ کی اراضی صرف کنٹونمنٹ کے مقصد کے لیے ہوتی ہے اور اسے تجارتی یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔
فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ کنٹونمنٹ کی زمین بنیادی طور پر وفاقی حکومت کی ہوتی ہے اور وفاقی حکومت کا کوئی ماتحت ادارہ زمین کی نوعیت تبدیل نہیں کر سکتا ۔
اگر زمین کنٹونمنٹ کی ضرورت نہیں ہے تو وفاقی حکومت کنٹونمنٹ سے اسے واپس لے کر سویلین لینڈ میں تبدیل کر سکتی ہے اور اس کا انتظام کوئی سویلین ادارہ سنبھالے گا ۔
مقدمے میں بلڈرز کو ملٹری اسٹیٹ آفس کی طرف سے زرعی زمین کے بدلے زمین دینے اور فیصل کنٹونمنٹ کی جانب سے اس پر کمرشل سرگرمیوں کی اجازت دینے کو بھی چیلنج کیا گیا ہے ۔
مقدمے میں ایک بڑا نکشاف یہ بھی کیا گیا ہے کہ کے کے ڈی اے اگر زمین کی قانونی مالک ہو تو بھی وہ کنٹونمنٹ کو زمین فروخت نہیں کر سکتی کیونکہ زمین رہائشی مقاصد کے لیے کے ڈی اے کو ہی دی گئی تھی ، فروخت کرنے کے لیے نہیں ۔

مقدمے میں آئینی پٹیشن نمبر ڈی 1254/1994 کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ، جس کا فیصلہ سپریم کورٹ کے جسٹس صبیح الدین احمد اور جسٹس امیر مسلم ہائی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 1 نومبر 2002 ء کو کیا تھا ۔
ڈپٹی کمشنر ایسٹ کراچی کے 13 نومبر کے بیان کو فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے کہ حکومت سندھ نے کے ڈی اے کو 1978 ء میں 2000 ایکڑ اراضی اسکیم 36 کے لیے دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔
کے ڈی اے نے 9 کروڑ 68 لاکھ روپے حکومت سندھ کو ادا کرنا تھے لیکن کے ڈی اے نے صرف ایک کروڑ 73 لاکھ 6 ہزار روپے ادا کیے ۔
عدم ادائیگی کی وجہ سے کے ڈی اے کوسرکاری حوالے نہیں کی گئی ۔ کے ڈی اے کے پاس زمین کی لیز بھی نہیں ہے ۔
مقدمے میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جب کے ڈی اے زمین کی قانونی مالک نہیں ہے تو اس نے ملٹری اسٹیٹ آفس کو زمین کیوں فروخت کی ۔
زمین کا ٹائٹل نہ ہونے کے باوجود ملٹری اسٹیٹ آفس نے بلڈرز کو زرعی اراضی کے بدلے زمین کیوں دی اور اس پر فیصل کنٹونمٹ نے تجارتی عمارات تعمیر کرنے کی اجازت کیوں دی ۔
عدالت نے بورڈ آف ریونیو سندھ ، کے ڈی اے ، ڈپٹی کمشنر ایسٹ کراچی ، مختیار کار گلشن اقبال، ملٹری اسٹیت آفیسر ،فیصل کنٹونمنٹ بورڈ ، کے کے بلڈرز اور دیگر دعوے داروں کو دستاویزات کے ساتھ 16 فروری 2021 ء کو ناظر کے پاس پیش ہونے کا حکم دیا ہے ۔
دیکھنا یہ ہے کہ اتنے بڑے لینڈ اسکینڈل کا منطقی انجام کیا ہوتا ہے ؟
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News

 
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                  
                                 