Advertisement
Advertisement
Advertisement

اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے

Now Reading:

اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے

انقلابی شاعرحبیب جالب کورخصت ہوئے 28 سال بیت گئے۔قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے حبیب جالب نے جو لکھا زبان زد عام ہوگیا۔

حبیب جالب کا اصل نام حبیب احمد تھا۔ وہ 24 مارچ 1928کو میانی افغاناں، ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔

جالب نے زندگی بھر عوام کے مسائل اور خیالات کی ترجمانی کی اور عوام کے حقوق کے  لیے آواز بلند کرتے رہے۔

1962میں انہوں نے صدر ایوب خان کے آئین کے خلاف اپنی مشہور نظم ’دستور‘ کہی جس کا یہ مصرع ’ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا‘ پورے ملک میں گونج اٹھا۔

رقص زنجیر پہن کے بھی کیا جاتا ہے

Advertisement

تو کہ ناواقفِ آدابِ غلامی ہے ابھی

بعد ازاں جالب نے محترمہ فاطمہ جناح کی صدارتی مہم میں بھی فعال کردار ادا کیا۔

سیاسی اعتبار سے وہ نیشنل عوامی پارٹی سے منسلک رہے اور انہوں نے عمر کا بیشتر حصہ اسی پارٹی کے ساتھ وابستہ رہ کر بسر کیا۔

انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہرعہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔

ہم نے اس بستی میں جالب

جھوٹ کا اونچا سر دیکھا ہے

Advertisement

ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم ’لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘ ضیاءالحق کے دور میں ’ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا‘ اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم ’وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے‘ نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔

تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں

اب نہ ہم پر چلے گا تمہارافسوں

چارہ گر میں تمہیں کس طرح کہوں

تم نہیں چارہ گر، کوئی مانے مگر

میں نہیں مانتا، میں نہیں مانتا

Advertisement

جالب کو کئی مرتبہ جیل میں سزا بھی کاٹنی پڑی تاہم انہوں نے شاعری نہیں چھوڑی۔ ایک مرتبہ جیل میں ان سے کہا گیا کہ انہیں کاغذ اور قلم فراہم نہیں کیا جائے گا جس پر انہوں نے جواب دیا ‘میں آپ کے محافظوں کو اپنے شعر سناؤں گا اور وہ اسے دیگر افراد کو سنائیں گے اور اس طرح یہ لاہور تک پہنچ جائیں گے۔

شاید بقیدِ زیست یہ ساعت نہ آسکے

تم داستانِ شوق سنو اور سنائیں ہم

جالب کو عوام کا شاعر کہنا غلط نہ ہوگا کیوں کہ دیگر اردو شاعروں کے برعکس جالب مقامی انداز اپنانے کی صلاحیت رکھتے تھے جس کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتے تھے۔

یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا

جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے

Advertisement

حبیب جالب کے شعری مجموعوں میں برگ آوارہ، سر مقتل، عہد ستم، حرف حق، ذکر بہتے خون کا عہد سزا، اس شہر خرابی میں، گنبد بے در، گوشے میں قفس کے، حرف سر دار اور چاروں جانب سناٹا شامل ہیں۔

حبیب جالب نے کئی معروف فلموں کے  لیے بھی نغمہ نگاری کی ۔

 کراچی پریس کلب نے انہیں اپنی اعزازی رکنیت پیش کرکے اپنے وقار میں اضافہ کیا تھا اور ان کی وفات کے بعد 2008میں حکومت پاکستان نے انہیں نشان امتیاز کا اعزاز عطا کیا تھا جو خود اس اعزاز کے لیے باعث اعزاز تھا۔

حبیب جالب کا انتقال 12 مارچ 1993کو لاہور میں ہوا اور انہیں قبرستان سبزہ زار اسکیم لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔

اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے

جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
کرکٹ کو ترجیح دی ، کھیل میں سیاست کا دخل نہیں ہونا چاہیے ، محسن نقوی
ایشیا کپ،میچ ریفری اینڈی پائی کرافٹ نے معافی مانگ لی
پنجاب کے تمام تعلیمی بورڈز کے بارہویں جماعت کے نتائج 2025 کی تاریخ اور وقت کا اعلان
شہر قائد میں چینی کے نرخ کیا ہوں گے؟ کمشنر کراچی نے بتا دیا
پاکستان اور یو اے ای کا میچ میں ایک گھنٹے تاخیر کا شکار،قومی ٹیم ہوٹل سے اسٹیڈیم پہنچ گئی
گھریلو صارفین کو ایل این جی کنکشنز دینے کا معاملہ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر