
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا ہے کہ اومیکرون ابھی تک پاکستان میں موجود نہیں ہے۔
فیصل سلطان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب بھی نئی چیز شروع ہوتی ہے اس میں مشکلات ہوتی ہیں، اومیکرون سے بچاو کا طریقہ بھی وہی ہے جو پرانی اقسام کا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اومیکرون ابھی تک پاکستان میں موجود نہیں ہے، یہ ایک شخص سے دوسرے شخص اور ایک ملک سے دوسرے ملک میں پہنچ جائے گا۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت کا کہنا تھا کہ اومیکرون سے بچاؤ کے لئے لوگ ماسک کا استعمال کریں، سماجی فاصلہ رکھیں، ہجوم میں نہ جائیں اور ویکسین لگوائیں۔
ڈاکٹر فیصل سلطان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بوسٹر ڈوزز کے حوالے سے بنیادی اعلان کر دیا گیا ہے، ہماری ترجیح ابھی بھی وہ لوگ ہیں جن کو ویکسین کی ایک خوراک بھی نہیں لگی۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قومی صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا مزید کہنا تھا کہ 50 سال سے زائد عمر افراد، کمزور قوت مدافعت اور ہیلتھ کیئر ورکرز کو بوسٹرز لگیں گے، آپ رضاکارانہ طور پر اپنی مرضی سے اضافی بوسٹر لگوا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے جنوبی افریقہ میں دریافت ہوئی کورونا وائرس کی نئی قسم کو ’’تشویشناک ویریئنٹ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے یونانی حرف ’’اومیکرون‘‘ کا نام دیا ہے۔
اس سے بیشتر کورونا کی اس نئی قسم کو ایک نمبر ’’بی ڈاٹ ون ڈاٹ ون فائیو ٹو نائن‘‘ دیا گیا تھا، اب تک کورونا وائرس کی مختلف اقسام سامنے آ چکی ہیں جنھیں عالمی ادارہ صحت ایلفا اور ڈیلٹا جیسے نام دے چکا ہے۔
برطانیہ کی ہیلتھ سکیورٹی ایجنسی سے منسلک جینی ہیرس کا کہنا ہے کہ وائرس کی یہ نئی قسم اب تک سامنے آنے والی تمام اقسام کے مقابلے میں زیادہ خطرناک لگتی ہے۔
فوری طور پر نئی ہنگامی ریسرچ کے ذریعے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ وائرس کتنی تیزی سے پھیل سکتا ہے، کتنا مہلک ہے اور ویکسین کے خلاف اس کی مدافعت کتنی مؤثر ہے۔
علاوہ ازیں عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی نئی قسم اومی کرون کو تشویشناک قرار دے دیا۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ نئی قسم اومی کرون کی خصوصیات پریشان کن ہیں، امریکا میں بھی اومی کرون کے کیسز ہوسکتے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا اس حوالے سے مزید کہنا ہےکہ کئی ہفتے بعد پتہ چلے گا کہ موجودہ ویکسینز اومی کرون کے خلاف کس قدر موثر ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ابتدائی شواہد سے پتہ چلا ہےکہ اس نئی قسم میں ری انفیکشن کا خطرہ دیگر اقسام سے زیادہ ہے۔
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کورونا وائرس کی اس نئی قسم کو اومی کرون کا نام دیا گیا ہے اور اس کے پہلے کیسز جنوبی افریقا میں دریافت کیے گئے تھے۔
اس کے بعد متعدد ممالک بشمول برطانیہ، کینیڈا اور امریکا نے جنوبی افریقا اور اس کے ارد گرد خطے کے ممالک پر سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے سامنے آنے کے بعد ایک بار پھر یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ کووڈ 19 کے خلاف تمام کوششیں ناکافی ثابت ہو سکتی ہیں اور اگر اس نئی قسم سے متعلق سائنسدانوں کے خدشات درست ہیں تو دنیا بھر میں کورونا کی ایک نئی لہر آ سکتی ہے۔
کورونا کی اس نئی قسم کی دریافت کی اہم بات یہ ہے کہ اس وائرس کے جینیاتی ڈھانچے میں بہت زیادہ تبدیلیاں موجود ہیں۔
دوسری جانب آسٹرا زینیکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین بنانے والی ٹیم کے سربراہ پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر کورونا وائرس کی نئی قسم اومیکرون کے خلاف بہت تیزی سے ایک نئی ویکسین تیار کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے اس امیدکا اظہار کیا کہ دستیاب تمام ویکسینز جنوبی افریقا میں سامنے آنے والی کورونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کے خلاف مؤثر ثابت ہوں گی اور آئندہ چند ہفتوں کی تحقیق میں اس سے متعلق معلومات حاصل ہوجائیں گی۔
پروفیسر اینڈریو پولارڈ اپنی گفتگو میں یہ بھی بتایا کہ ویکسین شدہ ملک یا شہر میں وہ وبائی مرض دوبارہ پھیلنے کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے لیکن ضرورت پڑنے پر ایک نئی ویکسین تیزی سے تیار کی جا سکتی ہے۔
آکسفورڈ ویکسین گروپ کے ڈائریکٹر پروفیسر اینڈریو پولارڈ نے امید ظاہر کی ہے کہ دستیاب تمام ویکسینز کورونا کی نئی قسم ’اومیکرون‘ کے خلاف مؤثر ثابت ہوں گی تاہم ایسا نہ بھی ہوا تو نئی ویکسین بہت تیزی سے تیار ہوجائے گی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News