
تحریر: محمد اعظم الفت
منی بجٹ کے بدقسمت تحفہ نے سال 2021 میں لوگوں کی زندگیوں کوکچھ زیادہ ہی دکھی بنادیا ہے جبکہ نئے بل کو بڑے پیمانے پر آئی ایم ایف کے حکم کردہ اقدامات کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
اس قانون سازی میں بنیادی طور پر گزشتہ بجٹ میں دیا گیا 343 ارب روپے کا ٹیکس ریلیف واپس لیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ بچوں کے پیکٹ والے دودھ سمیت اہم ترین اشیا پر 17 فیصد اضافہ ہوجائے گا جبکہ برسراقتدار لوگوں کاخیال ہے کہ منی بجٹ سے صرف امیر لوگ ہی متاثر ہوں گے۔
اس بل میں فارماسیوٹیکل سیکٹر پر 160 ارب روپے کا ٹیکس لگادیا گیا جس کے باعث یقینی طور پر ادویات کی قیمتیں بڑھ جائیں گی اور کم آمدنی والے افراد کے لیے خریداری مشکل ہو جائے گی۔
دوسری طرف وزیر خزانہ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ دوائیوں پر لگایا گیا یہ ٹیکس ریفنڈ ہوجائے گا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ رقم کی واپسی میں مہینوں لگتے ہیں۔
صارفین 2021 کو کبھی فراموش نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ایک مشکل سال تھا جس میں بہت سارے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، ہم شاید 2021 کے مصائب کو ایک سبق کے طور پر یاد رکھیں۔
گزشتہ سال کووڈ 19 پاکستان سمیت پوری دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج تھا کیونکہ پورے سال ہی کورونا کے مختلف قسم کے ویرینٹ سے جنگ جاری رہی جس میں ڈیلٹا اور بڑھتے ہوئے اومیکرون کے کیسز شامل تھے۔
کووڈ کے ساتھ ساتھ ناکام معاشی پالیسیوں نے معیشت کو بری طرح متاثر کیا اور اس وبائی مرض کے سب سے زیادہ شکار چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے ہوئے ہیں۔
واضح رہے کہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے ادارے ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جو کہ ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو آمدنی اور روزگار فراہم کرتے ہیں جبکہ یہ پاکستان کی معیشت کے لیے بھی بہت اہم ہیں کیونکہ یہ تقریباً 3 اعشاریہ 2 ملین کاروباری اداروں میں سے 90 فیصد سے بھی زائد کا حصہ رکھتے ہیں اور جی ڈی پی میں ان کا 40 فیصد حصہ ہوتا ہے۔
چھوٹے اور درمیانے درجے کا کاروبار ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں پھیلا ہوا ہے جبکہ یہ کاروبار مختلف شعبوں میں بھی نمایاں حصے کی نمائندگی کرتا ہے جس میں زراعت، مینوفیکچرنگ، ریٹیل، ہول سیل، تجارت اور خدمات کے شعبے شامل ہیں۔
کورونا وبا کے پھیلاؤں اور لاک ڈاؤن کے باعث چھوٹے اور درمیانی درجے کے کاروبار پر غیر معمولی اور منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔
گزشتہ سال 2021 تک ملک میں میڈیا سنسر شپ جاری رہی جبکہ پاکستان گزشتہ سال آزادی صحافت کی درجہ بندی میں بھی نیچے آگیا۔ ملک کے اندر تنقید کرنے والوں اور میڈیا کے حقوق کے بین الاقوامی نگرانوں نے بھی اس بڑے معاملے کو اجاگر کیا ہے۔
گزشتہ سال خواتین اور بچوں کے خلاف جرائم کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے جبکہ کوئٹہ کے ہولناک ویڈیو اسکینڈل نے بھی دسمبر میں قوم کو بری طرح جھٹکا دیا جس نے معاشرے کی بدسلوکی پر مبنی ذہنیت کو تکلیف دہ حد تک اجاگر کیا ہے۔
اس سال بہت سے مشہور و معروف افراد نے آخری سانسیں لیں جن میں بزرگ سیاستدان اور بلوچستان کی بلند پایہ شخصیت سردار عطاءاللہ خان مینگل، جونیجو کابینہ کے سابق وفاقی وزیر تجارت شہزادہ محی الدین احمد زئی بلوچ، دو ٹوک لیکن وسیع پیمانے پر قابل احترام سینیٹر عثمان خان کاکڑ شامل ہیں۔
عمران خان کی نااہل اور ناکارہ حکومت نے اگرچہ ہر ایک کو انصاف فراہم کرنے، اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن حقیقت میں ماورائے عدالت قتل سمیت گرفتاریاں عروج پر ہیں۔
عمران خان کی ٹیم نے سرکاری اشتہارات کی ادائیگی روک کر آزادی اظہار کو روکنے کا ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے۔ یہ پاکستان تحریک انصاف اور ان کے دعووں کا سال کا ایک مختصر جائزہ ہے۔
حالات بہتر ہو سکتے ہیں اگراپنی نرگسیت اور انا کو ایک طرف رکھیں اور ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے مخالفین سے مفاہمت کی کوشش کریں ورنہ ان کی پارٹی بھی ختم ہو جائے گی۔
معیشت، امن وامان کے مسائل، بنیادی ڈھانچے سے متعلق معاملات، زندگی کی بنیادی ضروریات کی سہولیات، ناہموار ترقی اور بلوچستان کے عوام کو درپیش دیگر چیلنجز 2022 کے دہانے پر بھی حل طلب ہیں۔
آسمان کو چھو لینے والے دعوے، انتخابی منشور اور عوامی جلوس، عام آدمی کی فلاح و بہبود کے دل کو چھو لینے والے نعرے مختلف پوڈیموں اور فورمز سے مسلسل بلند ہوتے رہے لیکن 2022 کی صبح کسی تبدیلی کا اندازہ لگانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
اگرچہ بڑے پیمانے پر ہر سرکاری شعبے میں تبدیلی لانے کا اعلان کیا جاتا ہے لیکن زمینی حقائق مختلف تصویر کو عیاں کر رہے ہیں۔یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بلوچستان کے لوگ نام ونہاد قوم پرست جماعتوں کی حقیقت بھی جان گئی ہے اورلوگ یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور قومی جماعتوں (پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ یا تحریک انصاف) میں فرق نہیں رہا ہے۔
نوٹ: بول نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News