بیرسٹر علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے اجلاس کا انعقاد ہوا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کے چیئرمین بیرسٹر علی ظفر کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کا اجلاس منعقد ہوا جس میں وزیر قانون فروغ نسیم نے والدین کے حقوق سے متعلق بل پر کمیٹی کو بریفنگ دی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ والدین کے حقوق سے متعلق بل لانے کا آئیڈیا وزیراعظم کا تھا، والدین کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو شکایات موصول ہوئی ہیں، وزیراعظم نے شکایت کے بعد والدین کے حقوق کا بل لانے کا کہا۔
ان کا کہنا تھا کہ بل کے تحت بچوں کو والدین کو گھر سے باہر نہ نکالنے کا پابند بنایا گیا ہے، بچوں کو کسی صورت والدین کو گھر سے نکالنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے، وزیراعظم نے کہا جتنا جلدی ہو سکے اس حوالے سے آرڈیننس لائو اور آرڈیننس آنے سے بہت لوگوں کے مسائل حل ہوئے ہیں۔
فاروق نائیک نے کہا کہ والدین کو گھر سے نکالنے والے کو ایک ماہ سزا ہو گی، بچے اگر گھر کے مالک ہوں تو انہیں گھر سے نکالنا خلاف قانون ہو گا۔
سیکرٹری قانون کامران مرتضی کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ والدین اور بچوں کے معاملے عدالتوں میں آنا اچھی بات نہیں، باپ بیٹے کا کیس تھانہ کچہری جائے گا تو بات ختم ہونے کے بجائے بڑھے گی، ڈپٹی کمشنر لاہور کو 40 درخواستیں موصول ہوئی تھیں اور درخواست دینے والے 25 والدین کے گھر بچوں سے واگزار کرائے گئے۔
علی ظفر کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ سینئر ترین جج میں قابلیت نہ ہو تو کیسے تعینات کیا جا سکتا ہے؟
منظور کاکڑ کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائیکورٹ کا ایک جج خود فیصلہ تک نہیں لکھ سکتا، جج صاحب نے فیصلے لکھنے کیلئے بندے رکھے ہوئے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ وزارت قانون بل کو سپورٹ کر رہی ہے لیکن کمیٹی اس بل کو دیکھے گی، اگلی میٹنگ میں فنانس ڈویژن کو بلائیں گے کہ کتنا خرچہ آئے گا۔
چیئرمین کمیٹی نے اگلی میٹنگ میں وفاقی محتسب کو بھی طلب کر لیا۔
بل کو مزید بحث کیلئے اگلی میٹنگ تک موخر کر دیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
