Advertisement
Advertisement
Advertisement

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین سے متصادم قرار، سپریم کورٹ نے اسمبلیاں بحال کردیں

Now Reading:

ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین سے متصادم قرار، سپریم کورٹ نے اسمبلیاں بحال کردیں
سپریم کورٹ

چیئرمین پی ٹی آئی کی توشہ خانہ کیس میں ٹرائل روکنے کی استدعا مسترد

سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ آئین کے خلاف ہے لہذا عدالت اسے کالعدم قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے کا حکم دیتی ہے۔ 

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے تحریک عدم اعتماد پرڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا۔

لارجر بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی میں شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینج نے 0-5 سے متفقہ فیصلہ جاری کیا۔

عدالت نے صدر مملکت کا اسمبلیاں تحلیل کرنے کا حکم بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم عمران خان صدر مملکت کو اسمبلیاں توڑنے کی ایڈوائس نہیں کرسکتے تھے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ وزیراعظم اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اہل نہیں تھے جب کہ عدالت نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے نگراں حکومت کے احکامات بھی کالعدم قرار دے دیے۔

Advertisement

عدالتی فیصلے میں اسپیکر قومی اسمبلی کو 9 اپریل بروز ہفتہ صبح 10 بجے اجلاس طلب کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ اسی دن عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائیں۔ عدالت کی جانب سے نئے انتخابات کا حکم بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔

عدالت نے متقفہ فیصلے میں کہا کہ کسی ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا جب کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے اور تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو اسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔

چیف الیکشن کمشنر 

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ فیصلہ سنانے کیلئے 8 بجکر 26 منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو سپریم کورٹ میں طلب کیا جس پر وہ فوری طور پر سپریم کورٹ پہنچے۔

پانچ رکنی بینچ عدالت میں پہنچا تو انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے استفسار کیا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہمیں 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے تیار رہنا چاہیے، الیکشن کمیشن ہر وقت تیار ہے الیکشن کرانے کے لیے لیکن ہمیں حد بندی کرنی ہیں لہٰذا ہمیں 6 سے 7 ماہ چاہئیں۔

خیال رہے چیف جسٹس آف پاکستان نے انتخابات کے لیے تجاویز طلب کی تھی اور الیکشن کمیشن حکام کو طلب کیا تھا۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ بھی فیصلے سے پہلے سپریم کورٹ پہنچ گئے تھے ان کے ہمراہ سیکریٹری الیکشن کمیشن اور قانونی ٹیم بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

Advertisement

بلاول بھٹو زرداری 

سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ میں معروضات جمع کروائیں۔ چیف جسٹس نے بلاول سے کہا تھا کہ ساڑھے 7 بجے سے قبل تفصیلات جمع کرائیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے نیئر بخاری، تاج حیدر، فیصل کریم کنڈی اور شیری رحمان، پی ٹی آئی کے سییٹر فیصل جاوید اور عامر کیانی، بابر اعوان  بھی فیصلے کے لیے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔

فیصلے کے پیش نظر سپریم کورٹ کی سیکیورٹی سخت کی گئی جبکہ پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری سپریم کورٹ تعینات کردیا گیا جبکہ کورٹ نمبر ایک میں غیر متعلقہ افراد اور صحافیوں کو بھی داخلے سے روک دیا گیا ہے جب کہ کمرہ عدالت میں داخل ہونے کے لئے وکلا اور پولیس والوں کے درمیان ھاتھا پائی بھی ہوئی۔ پولیس نے غیر متعلقہ افراد کو داخلے سے روک دیا۔

سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ 

سپریم کورٹ کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور قومی اسمبلی کی تحلیل غیر آئینی قرار دینے کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا۔ عدالت کا تحریری فیصلہ 8 صفحات پر مشتمل ہے۔

Advertisement

سپریم کورٹ کی جانب سے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین اور قانون سے متصادم قرار دی جاتی ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دی جاتی ہے، موجودہ کیس ان معاملات پر نمٹایا جاتا ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ تحریک عدم اعتماد ابھی زیر التوا ہے، وزیراعظم تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد آرٹیکل 58 کے تحت پابند تھے اور ہیں، وزیراعظم کسی بھی وقت صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش نہیں کر سکتے۔

تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ وزیراعظم کی صدر مملکت کو 3 اپریل کی سفارش کی قانونی حثیت نہیں، صدر مملکت کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا حکم آئین کے منافی ہے، صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کی قانونی حیثیت نہیں، صدر مملکت کا آرڈر کالعدم قرار دیا جاتا ہے، قومی اسمبلی بحال کی جاتی ہے۔

از خود نوٹس کا آخری روز

صدرمملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹرعلی ظفردوبارہ روسٹرم پر آئے اوردلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔ پارلیمان ناکام ہوجائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے۔ آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ وکیل صدر نے جواب دیا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔ جسٹس مظہرعالم نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟ کیا عدالت آئین کی محافظ نہیں ہے؟

Advertisement

جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟

بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اگرججز کے آپس میں اختلاف ہوں تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟

صدر مملکت کے وکیل نے جواب دیا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے۔ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ عدم اعتماد پر اگر ووٹنگ ہوجاتی تو معلوم ہوتا کہ وزیراعظم کون ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

 وکیل امیتیاز صدیقی کے دلائل 

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ بظاہرآرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی۔ اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناؤنس کردیں۔ الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ ہربارالیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا۔ یہ قومی مفاد ہے۔

وکیل وزیراعظم امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت نہیں کی۔ عدالت کے سامنے معاملہ ہاؤس کی کارروائی کا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔ امتیاز صدیقی نے کہا کہ ایوان کی کارروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے۔ عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے۔

Advertisement

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انتخابات کی کال دے کر 90 دن کے لیے ملک کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم صدرکی ہدایات پر کام کررہے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگرمخلوط حکومت بنتی ہے تو کیا ممکن ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو دیوار سے لگا دیا جائے۔

وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے اپنے دلائل ختم کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے کہا اگر بدنیت ہوتا تو اپنی حکومت ختم نہ کرتا ،  وزیراعظم نے کہا ان کے خلاف عوام میں جا رہا ہوں جنہوں نے کئی سال حکومتیں کیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے پاس کوئی مٹیریل دستیاب تھا جس کی بنیاد پر رولنگ دی؟

ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری کے دلائل

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا اسپیکر کا عدم اعتماد پرووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ اگراسپیکر پوائنٹ آف آرڈرمسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

نعیم بخاری نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کا مطلب نہیں کہ مسترد نہیں ہوسکتی۔ عدالت بھی درخواستیں سماعت کیلئے منظورکرکے بعد میں خارج کرتی ہے۔

قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے مںنٹس عدالت میں پیش

Advertisement

ا‏سپیکراورڈپٹی اسپیکرکے وکیل نعیم بخاری نے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے مںنٹس عدالت میں پیش کردیے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ آئینی تقاضا ہے۔ کیا ووٹنگ کے آئینی حقوق کو رولز کے ذریعے غیر مؤثر کیا جاسکتا ہے؟ اسپیکر کی تحریک مسترد کرنے کا اختیار قانون میں کہاں لکھا ہے؟ ہم پوائنٹ آف آرڈر کی تعریف سمجھنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ جب عدم اعتماد کی تحریک آجائے تو کیا نیا پوائنٹ آف آرڈر اٹھایا جاسکتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا اٹھایا گیا پوائنٹ آف آرڈرایجنڈے میں شامل تھا۔ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ پوائنٹ آف آرڈر پرکسی بھی وقت بات ہوسکتی ہے۔

نعیم بخاری کی جانب سے وقفہ سوالات کا حوالہ

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق پارلیمانی کمیٹی قومی سلامتی میں 11 لوگ شریک ہوئے تھے۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ کس نے دی تھی؟ چیف جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیا کہ پارلیمانی کمیٹی کو بریفننگ دینے والوں کے نام میٹنگ منٹس میں شامل نہیں۔ کیا فارن منسٹربھی اس میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟

نعیم بخاری نے جواب دیا کہ نوٹس بھجوایا گیا تھا۔ عدالت نے پھر استفسار کیا کہ نوٹس تو چلا گیا، ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ قومی سلامتی میٹنگ میں موجود تھے یا نہیں؟ وکیل ڈپٹی اسپیکر، اسپیکر نے کہا کہ لگتا ہے کہ فارن منسٹراس میٹنگ میں موجود نہیں تھے۔ عدالت نے کہا کہ ایڈوائزرقومی سلامتی معید یوسف کا نام بھی اس میں موجود نہیں ہے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل

Advertisement

وکیل نعیم بخاری کے دلائل کے بعد اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا۔ عدالت کسی کی وفاداری پرسوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کرسکتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پربریفننگ دی گئی۔ قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ  وزیراعظم سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر ہیں اس لیے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں۔ صدرسفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔

اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے۔ آئین ارکان کی نہیں ایوان کی 5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے۔ برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیراعظم کا آپشن ختم کردیا گیا ہے۔ ہمارے آئین میں وزیراعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک منظورکرنے کی اسپیکر نے رولنگ دیدی تو بات ختم ہوگئی۔ اسپیکر کے وکیل نے کہا رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا۔ تین اپریل کو بھی وہی اسپیکر تھا اور اسی کی رولنگ تھی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے اس پر آپ کو سننا چاہتے ہیں۔ خالد جاوید خان نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور اسپیکر رولنگ میں کتنے ٹائم کا فرق ہے۔ وہی اسمبلی بحال ہوئی تو ملک میں ٹرمائل ہوگا۔

Advertisement

چیف جسٹس نے کہا کہ وہ دل سے پارلیمنٹ کو چلتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمانی نظام میں قائد حزب اختلاف وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنتا توہے لیکن چل نہیں سکتا۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ اس ملک میں یہی آئینی بحران ہے۔ اگر وہی اسمبلی واپس آتی ہے تو وہ پہلے کی طرح کی اسمبلی نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے اس موقع پرکہا کہ اگر یہی اسمبلی واپس آتی ہے تو اسمبلی کے اندر اور سڑکوں پر بدامنی ہوگی اور یہ حزب مخالف بھی نہیں چاہے گی۔ رولنگ غلط ہے لیکن اس کا اگلا قدم کیا ہوگا۔ دلائل کا اگلا مرحلہ تکنیکی نہیں بلکہ قومی سلامتی سے متعلق ہوگا۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ایک بات تو واضح نظر آ رہی ہے کہ رولنگ غلط ہے۔ اب اگلا قدم کیا ہوگا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا۔

عدالت نے شہبازشریف کو روسٹرم پر بلا لیا

 شہباز شریف روسٹرم پر آئے اور عدالت سے کہا کہ عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لیے اعزاز ہے۔ اگر ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہو تو وزیراعظم کے ہاتھوں قومی اسمبلی کی تحلیل بھی غلط ہے۔ قانون کی عزت کرتے ہیں اور ججز پر پورا یقین ہے۔ ایک ہی درخواست ہے کہ نیشنل اسمبلی کو بحال کیا جائے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ‏آج آپ کو الیکشن میں جانے سے کیا مسئلہ ہے؟ شہباز شریف نے جواب دیا کہ ‏مسئلہ آئین توڑنے کا ہے۔ جسٹس جمال خان نے کہا کہ ‏آئین کی مرمت ہم کر دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت فائدے میں رہتی ہے۔ ہم نے آپ کو سن لیا ہے اور ہم قانون اور حالات کو دیکھیں گے اور ہم پاکستان کے لوگوں کے مفاد کو دیکھیں گے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
ایف بی آر کے ٹیکس ریٹرینز جمع کرانے کی مہم میں تاریخی اضافہ
سود کی شرح اور ایکسچینج ریٹ کی تبدیلی سے قرض کا بوجھ بڑھنے کا خدشہ، رپورٹ
آذربائیجان ٹورازم بورڈ کا کامیاب روڈ شو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوگیا
ای ٹریفک چالان کی شفافیت کا پول کھل گیا، حیدرآباد کے شہری کو غلط چالان موصول
افغانستان کو امن کی ضمانت دینا ہوگی ، خواجہ آصف
ٹرمپ نے پاکستان بھارت کے درمیان جنگ بندی کروا کر لاکھوں جانیں بچائیں ، شہباز شریف
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر