Advertisement
Advertisement
Advertisement

تمام چیزوں پر ٹیکسز کی شرح بڑھا دی گئی ہے، مزمل اسلم

Now Reading:

تمام چیزوں پر ٹیکسز کی شرح بڑھا دی گئی ہے، مزمل اسلم

سابق ترجمان وزارت خزانہ مزمل اسلم نے کہا ہے کہ تمام چیزوں پر ٹیکسز کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔

مزمل اسلم نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ معلوم ہوا ہے کہ 327 صفحات کا فنانس بل ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عوام کیلئے ٹیکسوں کی ایک لمبی فہرست ہو گی، کئی ٹیکس ابھی سامنے نہیں لائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ تمام چیزوں پر ٹیکسز کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔

مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت نے تاریخی خسارہ چھوڑا ہے، آنے والے دن عوام کیلئے بہت مشکل ہوں گے۔

Advertisement

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اگلے سال 1 ہزار ارب روپے سود کی مد میں زائد ادا کریں گے۔

واضح رہے کہ اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا بجٹ اجلاس ہوا  جس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل مالی سال 23-2022 کے لیے 9 ہزار 502 ارب روپے کا وفاقی بجٹ پیش کیا۔

رواں مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس وصولیوں کا تخمینہ 7 ہزار 4 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ 4598 ارب کا خسارہ ہے۔ بجٹ میں دفاع کے لیے 1 ہزار 523 ارب، ترقیاتی کاموں کے لیے 808 ارب، سود کی ادائیگی کے لیے 3 ہزار 950 ارب مختص کیے گئے ہیں۔

آمدنی واخراجات کا تخمینہ

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اگلے مالی سال ایف بی آر کے ریونیو کا تخمینہ 7004 ارب روپے ہے جس میں سے صوبوں کا حصہ 4100 ارب روپے ہوگا۔ وفاقی حکومت کے پاس نیٹ ریونیو 4904 ارب روپے ہوگا جب کہ نان ٹیکس ریونیو میں 2000 ارب روپے آمدن کا تخمینہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مالی سال 23-2022 میں وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ 9 ہزار 502 ارب روپے ہے جن میں سے 3950 ارب روپے ڈیٹ سروسنگ پر خرچ ہوں گے۔

Advertisement

دفاعی بجٹ

مالی سال 23-2022 کیلئے ملکی دفاع کیلئے 1523 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، سول انتظامیہ کے اخراجات 550 ارب روپے ہوں گے۔ بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ رواں مالی سال ڈیفنس پر 1450 ارب روپے خرچ ہوئے۔

ترقیاتی بجٹ

وزیر خزانہ نے بتایا کہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرامز کیلئے 800 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 18-2017 میں ہم نے وفاقی ترقیاتی بجٹ ایک ہزار ارب روپے پر چھوڑ کر گئے تھے ، اب جو ہم نے حکومت سنبھالی تو یہ تقریباً آدھا رہ گیا ہے۔

تعلیم

موجودہ بجٹ میں تعلیم کے لیے 65 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ 44 ارب روپے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے رکھے گئے ہیں۔

Advertisement

توانائی

مالی سال 23-2022 میں توانائی کے شعبے کے لیے 570 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عوام اور صنعت وتجارت کے لیے توانائی کلیدی اہمیت رکھتی ہے، ہم نے اپنے پہلے تین مہینوں کے دوران 214 ارب روپے اضافی سبسڈی ادا کی ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام

وفاقی بجٹ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 250 ارب روپے سے بڑھا کر 364 ارب روپے کردیا گیا ہے۔ اگلے مالی سال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 90 لاکھ خاندانوں کو بے نظیر کفالت کیش ٹرانسفر پروگرام کی سہولت میسر ہوگی جس کیلئے 266 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

بجٹ میں بے نظیر تعلیمی وظائف پروگرام کا دائرہ ایک کروڑ بچوں تک بڑھانے کا اعلان کیا گیا جب کہ 9 ارب روپے سے 10 ہزار طالب علموں کو بے نظیر انڈر گریجویٹ اسکالرشپ دی جائے گی۔

اس کے علاوہ یوٹیلٹی اسٹور کارپوریشن پر اشیاء کی سبسڈی کیلئے 12 ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے جب کہ 5 ارب روپے کی اضافی رقم رمضان پیکج کیلئے مختص کی گئی ہے۔

Advertisement

لیپ ٹاپ کی فراہمی

ملک بھر کے طلبہ کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ آسان قسطوں پر فراہم کیے جائیں گے۔

پنشن

وفاقی بجٹ میں پنشن کی مد میں 530 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ عوام کی سہولت کیلئے ٹارگیٹڈ سبسڈیز کی مد میں 699 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

زراعت

وفاقی بجٹ میں فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کیلئے 21 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

Advertisement

وزیر خزانہ بجٹ تقریر

بجٹ تقریر کے دوران وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سابقہ حکومت نے ڈالر کی قدر میں اتنا اضافہ کردیا کہ عوام انتہائی ابتری کی حالت سے دوچار ہے اور موجودہ حکومت کے پاس وقت کم ہے لیکن اس کے باوجود معیشت اور ملک کے لئے مشکل فیصلے کئے جائیں گے ، مشکل فیصلوں کی کڑی ابھی مکمل نہیں ہوئی۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم ملک میں بہتری لاکر دکھائیں گے ، اس وقت ہماری اولین ترجیح معاشی اصلاحات ہیں لیکن ہمیں نئی سوچ اپنانی ہوگی ، ہمیں کم آمدنی والے افراد کو سبسڈی دینی ہوگی تاکہ معیشت بہتر ہو جب کہ میں تباہ حال معیشت کو بہتر کرنے کا چیلنج درپیش ہے ، سابقہ حکومت کی بدانتظامی کے باعٹ صورتحال ہے۔

سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ

وزیر خزانہ نے کہا کہ ملک اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے پھر بھی سرکاری ملازمین کی مشکلات کا احساس ہے لہٰذا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافہ کیا جارہا ہے۔

گزشتہ حکومت نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا

Advertisement

وزیر خزانہ نے کہا کہ گزشتہ دور میں ایک نا تجربہ کار ٹیم نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا، ہر سال ایک نیا آدمی بجٹ پیش کرتا رہا اور ہر سال حکومت کی معاشی پالیسی تبدیل ہوتی رہی جس سے سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچا جب کہ سابقہ حکومت نے 20 ہزار ارب روپے زیادہ قرض لیا جو 71 سالوں میں سب سے زیادہ ہے ، بجلی کے گردشی قرضے میں ڈبل اضافہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے عالمی برادری اور عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے بھی بار بار مؤقف بدلنے کی عادت اپنائی، اس لیے آئی ایم ایف کا جو پروگرام اس سال ختم ہونا تھا، وہ فروری میں معطل ہوچکا تھا اور وہ بنیادی اصلاحات جو 2019 میں ہونی تھیں وہ ابھی تک نہیں ہوئیں۔

بہتر معشیت کیلیے تمام تبدیلیاں کی جائیں گی

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت ایسے اقدامات سے کتراتی رہی، اس لیے وہ تمام اصلاحات موخر ہوتی رہیں جن کی وجہ سے آج معشیت اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکی اور خوشحالی ہم سے دور ہوگئی جب کہ ہم بڑی آسانی سے ان تبدیلیوں کو آئندہ حکومت پر ڈال سکتے تھے لیکن اس میں ملک کا نقصان تھا، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام تبدیلیاں کی جائیں گی جن نے معشیت اور ملک کو فائدہ ہوگا۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم یہ جانتے ہوئے حکومت میں آئے تھے کہ ملک کی معشیت کی حالت خراب ہے، ہمارے پاس دو آپشن تھے، ملک کو اسی حالت میں چھوڑتے اور نئے انتخابات کا اعلان کردیتے لیکن اس سے معشیت کا بیڑا غرق ہوجاتا اور ملک کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھانا مزید مشکل ہوجاتا لہذا  ہم نے دوسرا راستہ اپنایا اور مشکل فیصلے کرنا شروع کیے۔

ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے

Advertisement

انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ قومی مفاد کو اپنے سیاسی مفاد پر ترجیح دی، اس وقت بھی ہماری اولین ترجیح معاشی استحکام ہے، ہماری معشیت کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا ہے کہ اکثر معاشی ترقی کی شرح 3 اور 4 فیصد کے درمیان رہتی ہے جو ہماری آبادی کی شرح سے مطابقت نہیں رکھتی، اس کے برعکس جب معاشی ترقی کی شرح 5 یا 6 فیصد سے اوپر جاتی ہے تو کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ قابو سے باہر ہوجاتا ہے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ہمیں غریب کے معاشی حالات کو سنوارنا ہوگا، غریب طبقے کو سہولتیں دینا ہوں گی تاکہ ان کی آمدن میں اضافہ ہو اور ہمیں معاشی ترقی کی بنیاد رکھنی ہوگی جس پر مستحکم معاشی ترقی کی شاندار عمارت تعمیر ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا اور اپنی برآمدات کی مسابقت کو بڑھانا ہوگا تاکہ عالمی منڈی دیگر ممالک کی مصنوعات کا مقابلہ کرسکیں، ہمیں کاروبار کرنے کے مواقع کو آسان اور بہتر بنانا ہوگا تاکہ مقامی اور بیرونی سرمایہ کار زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کریں۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہمیں مشینری اور خام مال کی درآمد کے بعد اس کی ویلیو میں اضافہ کرکے برآمد کرنا ہوگا، اس طرح جتنی درآمدات بڑھیں گی اس سے کہیں زیادہ بر آمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔

گزشتہ دور میں معاشی عدم استحکام جاری تھا

انہوں نے کہا کہ ہمیں تباہ حال معشیت کو درست راہ پر گامزن کرنے کا مشکل چیلنج درپش ہے، گزشتہ پونے 4 سال کے دوران معاشی عدم استحکام جاری تھا، تاریخی مہنگائی، غیر ملکی زر مبادلہ کی مشکلات، زیادہ لاگت پر بے دریغ قرضوں کا حصول، لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل نے عوام کی زندگیوں کو مشکلات سے دوچار کیا۔

Advertisement

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ گزشتہ پونے 4 سال کی بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان مہنگائی کے حساب سے دنیا کے بڑے ملکوں میں تیسرے نمبر پر ہے اور ساڑھے سات کروڑ لوگ غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جب کہ اس دوران 60 لاکھ لوگ بے روزگار ہوئے۔

گزشتہ حکومت نے 20 ہزار ارب روپے قرض لیا

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت نے 20 ہزار ارب روپے قرض لیا جو لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین سے لے کر ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، محمد نواز، شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویز اشرف سمیت تمام وزرائے اعظم کی حکومتوں کے 71 سال میں لیے گئے قرضوں کے 80 فیصد کے برابر ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سابقہ حکومت نے آمدن سے زیادہ خرچ کیا اور پاکستان کی تاریخ کے 4 بلند ترین خسارے کے بجٹ پیش کیے، ان کا اوسط بجٹ خسارہ 8عشاریہ 6 فیصد کے قریب رہا، اس دوران سالانہ تقریبا 5 ہزار ارب روپے کا قرض بڑھایا گیا اور رواں مالی سال میں پانچ ہزار 100ارب روپے کا خسارہ متوقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح بجلی کا گردشی قرضہ ایک ہزار 62 ارب روپے سے بڑھ کر جو ہم مئی 2018 میں چھوڑ کر گئے تھے، اب ڈھائی ہزار ارب روپے کا ہوگیا ہے اور ملکی تاریخ میں پہلی بار گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ دیکھنے میں آیا ہے جو مارچ 22-2021 میں ایک ہزار 400 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ عمران خان کی حکومت آتے ہی چینی اور آٹے کی قیمتیں کیوں بڑھ گئیں، 2013 میں چینی کی قیمت 55 روپے فی کلو تھی اور 2018 میں جب ہم گئے تو چینی کی قیمت 53 روپے تھی مگر پھر 2018 کے بعد چینی کی قیمت کو پر لگ گئے اور اس کی قیمت 140 روپے سے تجاوز کر گئی۔

Advertisement

انہوں نے کہا کہ جب 2018 میں ہماری حکومت گئی تو پاکستان گندم اور چینی برآمد کر رہا تھا مگر اب ہم دونوں چیزیں درآمد کر رہے ہیں جس کی وجہ سابقہ حکومت کے غلط فیصلے ہیں جب کہ ہمارے ایل این جی کے معاہدوں پر جھوٹے الزامات لگائے گئے جس کی وجہ سے کئی رہنماؤں کو جیل کاٹنا پڑی، سابقہ حکومت نے کورونا کے دوران سستے ترین نرخوں پر معاہدے کرنے کے بجائے مہنگے معاہدے کیے جس کی وجہ سے ہمیں مہنگی ایل این جی خرید رہے ہیں۔

عمران خان کے فیصلے سے معیشت بحران میں پھنس گئی

مفتاح اسمٰعیل نے مزید کہا کہ جب عمران خان کو فروری کے آخر میں لگا کہ ہماری حکومت جارہی ہے تو انہوں نے پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم کیں جب کہ پاکستان کا خزانہ قرضے پر چل رہا تھا، اس فیصلے سے پاکستان کی معیشت بحران میں پھنس گئی جس کو نکالنے کی کوشش جاری ہے۔

بعد ازاں بجٹ پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس 13 جون سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ اجلاس میں آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کی منظوری دی اور کابینہ نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 15 فیصد اضافے اور سرکاری ملازمین کی پنشن میں 5 فیصد اضافے کی بھی منظوری دی گئی۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
وزیراعظم کا ملائشیا کے سرکاری دورے سے متعلق اہم بیان
شہر قائد میں سمندری ہوائیں تاحال معطل، موسم گرم رہنے کا امکان
مشکل حالات کے باوجود علم کی شمع جلانے والے اساتذہ قوم کا سرمایہ ہیں، صدر و وزیراعظم
بھارت نے پھر کوئی حماقت کی تو جواب نیا ، تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگا، افواج پاکستان
کراچی، شاہراہِ فیصل ناتھا خان پل پر ایک اور شگاف، ٹریفک کی روانی متاثر
سونا پھر مہنگا، قیمت میں بڑا اضافہ ریکارڈ
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر