
الیکشن کمیشن کی جانب سےچوہدری شجاعت حسین کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق چوہدری شجاعت حسین کی ق لیگ کے انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواست پر چیف الیکشن کمشنر کی زیر صدارت پانچ رکنی بینچ نے سماعت کی۔
ق لیگ پنجاب کے سیکریٹری جنرل کامل علی آغا، رائے منصب علی خان الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے جبکہ چوہدری شافع حسین، وفاقی وزیر سالک حسین، ایم این اے فرخ خان الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے ہیں۔
وکیل عمر اسلم نے سماعت کے دوران دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی صدر کو انتقال یا مستعفی ہوئے بغیر نہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سینٹرل ورکنگ کمیٹی پارٹی معاملات کی نگرانی کرتی ہے جس کے 200 ارکان ہوتے ہیں جبکہ پارٹی کے اندر کوئی منتخب سینٹرل ورکنگ کمیٹی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پارٹی عہدے دار کے خلاف ڈسپلنری کارروائی کرنا ورکنگ کمیٹی کا اختیار ہے اور جب سینٹرل ورکنگ کمیٹی موجود ہی نہیں تو چوہدری شجاعت کو نہیں ہٹایا جاسکتا ہے۔
اس دوران ممبر نثار درانی نے سوال کیا کہ کیا پارٹی صدر کے خلاف ڈسپلنری کارروائی نہیں کی جاسکتی؟ جس کا جواب دیتے ہوئے چوہدری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ پارٹی صدر کے خلاف ورکنگ کمیٹی ڈسپلنری کارروائی کر سکتی ہے لیکن اس سے قبل بھی نوٹس جاری کرنا ضروری ہے اور جن 83 ارکان نے اجلاس میں شرکت کی کیا الیکشن کمیشن کو ریکارڈ موصول ہوا؟، ہمیں بھی ریکارڈ فراہم نہیں کیا جارہا اور ق لیگ کے صوبہ پنجاب دفتر پر قبضہ کرلیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کب اجلاس بلایا گیا، کیسے الیکشن کمیٹی بنی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے جس کے بعد چوہدری شجاعت حسین کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کیے۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن نے چوہدری شجاعت حسین کو ہٹانے سے متعلق حقائق الیکشن کمیشن میں پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ بتائیں کس بنیاد پر چوہدری شجاعت حسین کو صدارت سے ہٹایا گیا ہے۔
بعدازاں وکیل احمد پنسوٹہ نے اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے سے متعلق دلائل دوں گا۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت کو پارٹی آئین کے تحت صدر بنایا گیا اور اب چوہدری شجاعت اسی پارٹی آئین کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں متنازعہ معاملات ہیں جس پر سوال کرتے ہوئے ممبر نثار درانی نے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن پارٹی معاملات نہیں دیکھ سکتا؟ اور کیا الیکشن کمیشن پارٹی معاملات کو ریگولیٹ نہیں کرسکتا؟
ان سوالات کے جواب میں وکیل احمد پنسوٹہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن ریگولیٹ کر سکتا ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن میں مداخلت نہیں کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چوہدری شجاعت حسین آج بھی پارٹی کے رکن ہیں وہ دوبارہ صدر کا الیکشن لڑیں کوئی اعتراض نہیں لیکن ہم الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی الیکشن میں مداخلت کے خلاف ہیں جس کے بعد کامل علی آغا کے وکیل کے دلائل مکمل ہوئے۔
بعدازاں الیکشن کمیشن نے چوہدری شجاعت حسین کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے تاہم فیصلہ سنانے کا وقت مقرر نہیں کیا گیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News