آڈٹ میں انکشاف ہو اہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی )نے امتحانات میں پرائیویٹ نگرانوں کی خدمات حاصل کیں۔
کانٹینٹ سیل بول نیوز اسلام آبادکو دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق وفاقی پبلک سر وس کمیشن آف پاکستان کے آڈٹ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ کمیشن نے 2022ـ21 کے مختلف امتحانات کے لیے امیدواروں کی نگرانی کے لیے نجی نگرانوں کی خدمات حاصل کیں۔
آڈیٹر جنرل آف پا کستان کی رپورٹ کے مطا بق کمیشن نے ان پرائیویٹ نگرانوں کو 68 لاکھ 11 ہزار روپے معاوضہ ادا کیا جو خلاف ضابطہ ہے۔ کمیشن نے ان نجی نگرانوں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے کوئی ایس او پی یا ریگولیشن وضع نہیں کیے ۔
ایف پی ایس سی نگرانوں کا انتخاب پبلک میں سے بغیر کسی تصدیقی عمل کے کیا گیا اور ان کے تعلیمی ، کریمنل اور کردار کی ویری فیکیشن نہیں کی گئی۔ صرف ان سے شناختی کارڈ اور موبائل فون نمبرز حاصل کیے گئے۔
آڈٹ حکام نے نمونے کے طور پر ایک سیمپل کو چیک کیا تو 75 فیصد شناختی کارڈ نمبر جعلی تھے۔
آڈٹ حکام کا موقف ہے کہ بغیر تصدیقی عمل کے پرائیویٹ نگرانوں کی ہائرنگ امتحانات کے شفاف انداز میں انعقاد کے لیے بڑا رسک ہے۔
ڈیپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں کمیشن کی مینجمنٹ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ اس معاملے کی انکوائری کروائی جا ئے اور ذمہ داروں کا تعین کیا جا ئے ۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کمیشن سسٹم دستیاب ہونے کے با وجود ملٹی چوائس کوئسچن مینجمنٹ سسٹم (ایم سی کیوز) ایپلی کیشن پر عمل نہیں کر رہا۔
وزارت انفارمشین ٹیکنالوجی نے یہ نظام 2003 سے 2006 کے دوران تیار کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ا س سسٹم میں مداخلت کے امکانات کم ہوتے ہیں اور شفاف سسٹم ہے لیکن اب بھی کمیشن بہت سا کام مینوئل طریقے سے کر رہا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کمیشن نے اپنے آن لائن سسٹم کا سیکیورٹی آڈٹ نہیں کرایا جو قانونی تقاضا ہے۔یہ بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ کمیشن نے اپنے سرورز پر لائسنس یافتہ اینٹی وائرس اینٹی ٹروجن ،اینٹی اسپائی ویئر کی تنصیب نہیں کی۔
رپورٹ کے مطابق آن لائن ریکروٹمنٹ سسٹم کی تنصیب پر 94 ملین روپے خرچ کیے گئے مگر سوائے آن لائن درخوستوں کی وصولی اور ویب سائٹ کے عملی طور پر پورے سسٹم کو آپریشنل نہیں کیا گیا جو کیے گئے اخراجات کا ضیاع ہے۔
رپورٹ میں حسابات کی کمزور مینجمنٹ کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ 190 ملین روپے کی وصولی کی گئی۔ ان میں سے 177 ملین ایک اکاؤنٹ اور 12 ملین دوسرے اکاؤنٹ میں رکھے گئے جن کو اکٹھا نہیں کیا گیا۔ آڈٹ حکام نے انکوائری کی سفارش کی ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا کہ کمیشن حکام نے آڈٹ ٹیم کو متعلقہ ریکارڈ فراہم نہیں کیا جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔آڈٹ حکام نے پوچھا تھا کہ کمیشن نے کیا امتحانی سائیکل بنایا اور عملی طور پر یہ امتحانات کب منعقد کیے گئے ؟۔یہ پوچھا گیا تھا کہ مختلف ڈائریکٹوریٹس میں کام اور فرائض کی تقسیم کیا ہے؟یہ پوچھا گیا کہ کام کی تقسیم کی ایس او پی کیا ہے؟ ۔ 2020-21 کے امیدواروں کی فہرست مانگی گئی جو نہیں دی گئی۔ ملازمین کی روٹیشن کے لیے ایس او پی کیا ہے؟ملازمین کے خلاف اب تک کی گئی انکوائری یا انضباطی کا رروائی ؟ملازمین کی کل تعداد کیا ہے؟۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ آڈٹ کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی ذمہ داری کا تعین کیا جا ئے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
