
وفاقی شرعی عدالت نے انسداد دہشت گردی قانون میں ترمیم کے خلاف درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وزارت قانون و انصاف اور چاروں صوبوں کے آئی جی جیل خانہ جات کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
قائم مقام چیف جسٹس محمد انور کی عدالت میں ڈاکٹر عرفان اقبال کی جانب سے دائر کی گئی انسانی حقوق کی درخواست کی سماعت ہوئی۔
درخواست گزار کے وکیل راجہ غنیم عبیر خان نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ 15 اگست 2001 کو انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 میں کی گئی ترمیم سے قیدیوں کو سزاؤں میں ملنے والی رعایت ختم کر دی گئی ہے جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور درخواست گزار اپنی سزا پوری کرنے اور جیل مینول کے مطابق خدمات بھی سرانجام دے رہا ہے لیکن اس کو سزاؤں میں رعایت نہیں مل رہی۔
سماعت کے بعد جاری کیے گئے دو صفحات پرمشتمل تحریری فیصلے میں عدالت نے قرار دیا ہے کہ آئی جی جیل خانہ جات کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ سے واضح ہے کہ درخواست گزار کو سزاؤں میں ملنے والی رعایت 27 جنوری 2006 سے نہیں مل رہی ۔
اس پر درخواست گزار کے وکیل نے سپرنٹنڈنٹ جیل کراچی کی دستاویزات پر انحصار کرتے ہوئے کہا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کی شق 21ایف میں ترمیم کے باوجود سندھ میں قیدیوں کو سزا ؤںمیں رعایت دی جا رہی ہے ۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ وکیل کے دلائل سے بادی النظر میں ظاہر ہوتا ہے کہ حقوق انسانی سے متعلق درخواست قابل سماعت ہے کیونکہ اسلامی قانون کی روشنی میں کسی بھی شخص کو اس کاحق دینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا اس لیے انسانی حقوق سے متعلق درخواست کو شریعت پٹیشن میں تبدیل کیا جاتا ہے۔
عدالت نے وفاقی سیکرٹری برائے قانون و انصاف اور چاروں صوبوں کے آئی جیز برائے جیل خانہ جات کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کرلیا ہے ۔
کیس کی مزید سماعت دسمبر کے پہلے ہفتے میں کی جائے گی۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News