Advertisement
Advertisement
Advertisement

سابق وزیراعظم کے فیصلوں کے بعد اتحادی حکومت ہوئی پریشانی کا شکار

Now Reading:

سابق وزیراعظم کے فیصلوں کے بعد اتحادی حکومت ہوئی پریشانی کا شکار
اتحادی حکومت

سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے پر موجودہ حکومت پریشانی کا شکار ہوگئی ہے اور اس معاملے پر توڑ نکالنے کے عمل میں مصروف ہے۔

اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ کے پی کے اور پنجاب صوبے کی اسمبلی سے استعفے دینے کے بجائے اسمبلیاں تحلیل کرنے کے فیصلے نے پی ڈی ایم اتحاد کی پریشانی میں اضافہ کردیا کیونکہآئین کے آرٹیکل 112 کی شق ایک کے تحت کسی بھی صوبے کا وزیر اعلیٰ اسمبلی تحلیل کرنے کی گورنر کو سفارش کر سکتا ہے۔

گورنر کسی بھی صوبے کے وزیر اعلیٰ کی سفارش پر اگر اسمبلی تحلیل نہیں کرتے تو 48 گھنٹوں کے بعد اسمبلی از خود تحلیل تصور ہوگی۔

ذرائع نے بتایا کہ دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے بجائے دونوں اسمبلیوں سے پی ٹی آئی ممبران کے مستعفی ہونے پر وفاقی حکومت گورنر راج لگانے کا آپشن زیرِ غور تھا تاہم پی ٹی آئی ممبران اگر دونوں اسمبلیوں سے مستعفی ہوں تو دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ختم ہوجائیگی اور اس صورت میں ضمنی انتخاب تک دونوں صوبوں میں گورنر راج کا آپشن استعمال ہو سکتا ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ پنجاب اور کے پی کے صوبے کی اسمبلیوں کو تحلیل ہونے پر دونوں صوبوں میں گورنر راج کا آپش استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے تاہم پنجاب اور کے پی کے صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کی صورت میں آئینی طور صوبوں میں نگران حکومتیں بنانا ہونگی۔

Advertisement

آئین کے آرٹیکل 224 (1 -الف) کے تحت دونوں صوبوں کی اسمبلی تحلیل ہونے پر نگران کابینہ کا تقرر ہوگا، نگران وزیر اعلیٰ کا تقرر گورنر جانے والی صوبائی اسمبلی کے وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے کرے گا۔

اگر وزیر اعلیٰ اور قائد حزب اختلاف اسمبلی کے تحلیل ہونے کے تین دنوں کے اندر کسی شخص کی تقرری پر متفق نہ ہوں تو آئین کے آرٹیکل 224 الف کی شق ایک اور دو کے تحت دو دو نام سپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی کو ارسال کریں گے اور یہ کمیٹی چھ اراکين پر مشتمل ہوگی جس میں حکومت اور اپوزیشن کو مساوی نمائندگی حاصل ہوگی جبکہ کمیٹی تقرری کے حوالے سے فیصلہ نہ کر پانے کی صورت میں وزیر اعلیٰ کے عہدے کے لیے نامزد نام الیکشن کمیشن کو بھجوائے جائیں گے۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن حتمی فیصلہ کرے گا جبکہ نگران وزیر اعلیٰ کو نگران کابینہ کے تقرر کا اختیار ہوگا ۔

دوسری جانب کے پی کے اسمبلی سے پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے مستعفی ہونے پر بھی پی ڈی ایم اتحاد کے پاس الیکشن کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

خیال رہے کہ کے پی کے اسمبلی میں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے نے کے لیئے 73 ارکان کی ضرورت ہے اور پی ٹی آئی کے خیبرپختونخواہ اسمبلی سے باہر آنے کی صورت میں ساری پارٹیوں کے کل 47 ممبران باقی رہ جاتے ہیں اور کسی پارٹی سے ممبران توڑ کر ان سے وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں ووٹ لینے کے آگے سپریم کورٹ کا فیصلہ رکاوٹ ہے جس کے بعد کے پی کے اسمبلی میں پی ٹی آئی کے سوا حکومت بنانا لگ بھگ ناممکن ہے۔

علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی سے استعفوں کی صورت میں ق لیگ کے ممبران کا فیصلہ کن کردار ہے جبکہ پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت بنانے کے لیے 186 ارکان کی ضرورت ہے  اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے 167 ، پیپلزپارٹی کے 7 ،آزاد ارکان 6 راہ حق کے ایک رکن کو ساتھ ملانے سے بھی کل ارکان کی تعداد 181 بنتی ہے۔

Advertisement

پنجاب میں ق لیگ کو کیسے پی ٹی آئی سے توڑا جائے پر ق لیگ کے واضع موقف کے باوجود حکومتی اتحاد کی کوششیں جاری ہیں جبکہپنجاب اسمبلی میں ق لیگ کے ممبران کی سپورٹ حاصل کرنے کے لیے چودھری شجاعت سے مدد لینے پر بھی غور کیا جارہا ہے  کیونکہ ق لیگ کے 10 ارکان میں سے صرف حکومتی اتحاد کو 6 ممبران کی حمایت درکار ہے۔

ق لیگ سے حمایت نہ ملنے کی صورت میں آئین کے آرٹیکل 236 کے تحت پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد جمع کرانے کا صرف کچھ دنوں کی تاخیر کے علاوہ کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
بحیرہ عرب کا سمندری طوفان شکتی میں تبدیل، کراچی سمیت کئی اضلاع میں الرٹ جاری
جے ڈی سی کے ظفر عباس سے 14 کروڑ کا ماہانہ بھتہ مانگنے والا گروہ پکڑا گیا
بیانات نہیں، عملی اقدامات سے ہی غزہ میں امن آئے گا، اسحاق ڈار
پنجاب کا کونا کونا چمکائیں گے، صرف لاہور نہیں، ہر گاؤں ترقی کرے گا، مریم نواز
بحیرہ عرب میں موجود سسٹم شدت اختیار کرگیا، کراچی سمیت سندھ میں ہلکی بارش کا امکان
سرکاری حج اسکیم؛ حج واجبات کی آخری قسط کی وصولی کا آج سے آغاز
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر