افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی سفارت خانہ پر دہشت گرد حملے کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ خراسان نے قبول کرلی ہے۔
اس حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے بتایا کہ اسلامک اسٹیٹ خراسان کی حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بارے میں رپوٹس دیکھی ہیں، افغان حکام سے مشاورت اور آزادانہ طور پر رپورٹس کی صداقت کی تصدیق کررہے ہیں۔
دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ یاد دہانی ہے کہ دہشت گردی سے افغانستان، خطے میں امن و استحکام کو شدید خطرہ ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے مزید کہا کہ دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کیلئے ہمیں تمام تر اجتماعی طاقت کے ساتھ عزم سے کام لینا چاہیے، پاکستان دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنے عزم پر ثابت قدم ہے۔
یاد رہے کہ جمعے کو کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے کمپاؤنڈ پر حملہ کیا گیا تھا، جس کا نشانہ پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی تھے، وہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے، تاہم سیکیورٹی گارڈ گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہو گئے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق کابل پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اور جائے وقوعہ کے قریب عمارت سے دو ہتھیار بھی برآمد ہوئے ہیں۔
اس حوالے سے ترجمان دفترخارجہ کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانہ بند کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، کابل سے سفارت کاروں کے انخلاء کا بھی کوئی امکان نہیں ہے۔
ترجمان دفترخارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان میں عبوری حکومت سے رابطے میں ہے، افغانستان میں پاکستانی سفارت کاروں اور مشن کے تحفظ کے لیے اضافی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ٹوئٹ میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی فوری تحقیقات اور حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔
شہباز شریف نے کہا کہ میں اس گارڈ کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے خود گولی کھا کر پاکستانی مشن کے سربراہ کی جان بچائی۔
اس حملے کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ان کے افغان قائم مقام ہم منصب امیر خان متقی نے انہیں فون کر کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے پاکستانی سفیروں اور مشن کی سکیورٹی بڑھانے کی یقین دہانی کرائی ہے۔