
پشاور پولیس لائن دھماکے میں بچ جانے والے اہلکار دوہری مشکل میں پھنس گئے
پشاور، پولیس لائن کی مسجد میں 2 روز قبل ہونے والے دھماکے میں جاں بحق افراد کی تعداد 101 ہوگئی ہے جبکہ 221 افراد زخمی ہیں جس میں 49 افراد تاحال زیر علاج ہیں۔
سانحہ پشاور کے تیسرے روز بھی شہید ہونے والی مسجد کا ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے جبکہ جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم خودکش حملے کی تحقیقات کر رہی ہے لیکن ابھی تک خودکش حملہ آور کے داخلے سے متعلق معلومات نہیں مل سکیں ہیں۔
آئی جی خیبرپختونخوا
اس حوالے سے آئی جی خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پولیس لائنز میں ہونے والا دھماکہ خودکش تھا۔
انہوں نے بتایا ہے کہ خودکش حملہ آور کا سر اور کچھ اعضا ملے ہیں جو کہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لئے سیمپلنگ فرانزک کے لئے بھیجوا دیئے گئے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور حملے جیسی بزدلانہ کارروائیوں سے قوم کا عزم متزلزل نہیں ہوگا، کور کمانڈرز کانفرنس
آئی جی کے پی کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں کا کنٹرول کسی علاقہ پر اس طرح نہیں جس طرح دس بارہ سال پہلے تھا لیکن اس معاملے پر انٹلیجنس بیس آپریشنز ہونے چاہیے اور اگرکوئی دہشتگرد بھاگ کر افغانستان میں پناہ لے لیں،تو معاہدے کے بنیاد پر وہ ہمارے حوالے کیے جائیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اہم ریمارکس
اس حوالے سے سپریم کورٹی میں ایک سماعت کے دوران اہم ریمارکس دیتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ دہشتگردوں سے کب تک ڈریں گے؟
انہوں نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کہا جاتا ہے کہ دہشتگردوں کو یہ دو وہ دو اور کبھی کہا جاتا ہے دہشتگردوں سے مذاکرات کرو، اس دوران ریاست کہاں ہے؟
انہوں نے مزید کہا کہ دہشتگردوں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں؟ آج دہشتگرد دو بندے ماریں گے کل کو کو پانچ مار دیں گے،پتہ نہیں ہم کس معاشرے میں رہ رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ مبی داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان یا اچھا انسان نہیں بن جاتا، ایک جج نے دہشتگردی کے واقعہ پر رپورٹ دی اس کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا، ہمارے ایک جج کو مار دیا گیا کسی کو پرواہ ہی نہیں ۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News