
سیلاب میں 4 لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہوئے، پی ڈی ایم اے
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ سیلاب میں 4 لاکھ سے زائد جانور ہلاک ہوئے۔
محکمہ پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2022میں آنے والے سیلاب سے 4 لاکھ 34 ہزار 424 جانور ہلاک ہوئے ہیں ۔
مالداری کے شعبے میں سب سے زیادہ نقصان لسبیلہ اور کچھی بولان میں ہوا ہے ۔
ہلاک شدہ جانوروں سے متعلق رپورٹ کردہ اعداد و شمار کے مطابق چمن میں 701، آوارن میں 7 ہزار 773، کچھی بولان میں 27 ہزار 193، بارکھان میں 971، ڈیرہ بگٹی میں 13 ہزار 901، زیارت میں 4 ہزار 567، ژوب میں 5 ہزار 612، نوشکی میں 2 ہزار 229 اور دکی میں 5 ہزار 488 جانور ہلاک ہوئے۔
پشین میں ایک ہزار 275، صحبت پور میں 7 ہزار 515، خاران میں 2 ہزار 976، جھل مگسی میں 90 ہزار 783، پنجگور میں 3 ہزار 391، کوہلو میں 11 ہزار 54، شیرانی میں 354، ہرنائی میں 554 اور قلعہ سیف اللہ میں 4 ہزار 765 جانور ہلاک ہوئے۔
خضدار میں ایک ہزار 316، قلات میں 1300، سوراب میں 7، کیچ میں 8، مستونگ میں 2 ہزار 663، قلعہ عبداللہ میں 2 ہزار 187، سبی میں 2 ہزار 230، لسبیلہ میں 2 لاکھ 16 ہزار 726، لورالائی میں 1354، کوئٹہ میں 2 ہزار 336، واشک میں 187، موسیٰ خیل میں 6 ہزار 953، نصیرآباد میں 2 ہزار 310، جعفرآباد میں 3 ہزار 722 اور چاغی میں 23 جانور ہلاک ہوئے ۔
مالداری کے شعبے سے وابستہ بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے کلی باغ وایلے کے رہائشی محمد جان اس سال عید الضحیٰ پر قربانی کے چھوٹے جانور فروخت نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کے 346 بھیڑ بکرے اوربکریاں سال 2022میں آنے والے سیلاب کی نذر ہوگئے ہیں ۔
محمد جان کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں اس سے قبل کبھی سیلاب نہیں آیا یہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مون سون کی بارشیں اتنی شدت سے برسیں کے دل دہل گیا ۔
انہوں نے کہا کہ سیلابی ریلا محنت و محبت سے پالے میرے 3سو سے زائد جانور بہا لے گیا جس پر نہ صرف مالی نقصان ہوا ہے بلکہ دلی صدمہ بھی پہنچا۔ ان کے مطابق ایک جانور کی قیمت کم از کم 40 ہزار سے 50 ہزار کے درمیان تھی ۔
وہ کہتے ہیں کہ مالی معاونت سے متعلق حکومت کے کسی ادارے یا شخص نے ان سے رابطہ نہیں کیا تاہم علاقے میں نقصانات کا ضلعی انتظامیہ نے سرسری جائزہ ضرور لیا تھا لیکن اب سیلاب کو 5 ماہ کا عرصہ گزر گیا لیکن شنوائی کے لیے کوئی نہیں آیا۔
محمد جان کہتے ہیں کہ وہ ہر سال عیدالضحٰی کے موقع پر جانور کوئٹہ کی منڈیوں کے لیے بیچا کرتے تھے لیکن اس سال ان کے پاس جانور موجود نہیں ہیں۔
بلوچستان میں فیکٹریاں اور بڑی کمپنیاں نہیں ہونے کی وجہ سے روزگار کے مواقع انتہائی محدود ہیں ۔
زراعت کے بعد مالداری ایسا شعبہ ہے جس سے صوبے کی بڑی آبادی کا گزر بسر وابستہ ہے لیکن شدید بارشوں اور سیلاب نے مالداروں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔
بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مالدار بکرے دنبے عید الضحیٰ سے قبل تیار کرتے ہیں جنہیں وہ خوراک کے لیے جڑی بوٹی لگے پہاڑی علاقوں میں چراتے ہیں جس سے اُنہیں بُھسہ اورگھاس کے اخرجات سے نجات مل جاتی ہے ۔
موجودہ سیلاب میں کئی پہاڑی علاقوں میں آنے والے سیلابی ریلوں میں پہاڑوں پر چرنے والے جانور پانی کے ریلوں میں بہہ گئے ہیں اور مالداروں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا ہے۔
نصیرآباد ڈویژن کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی سے تعلق رکھنے والے رحمت اللہ بنگلزئی اپنے علاقے کی شہری ایکشن نامی کمیٹی کے چیئرمین ہیں اور مالداری کے شعبے سے بھی تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ 50 بھینسوں کے مالک ہیں ۔
رحمت اللہ بنگلزئی کہتے ہیں کہ سیلاب کے دوران کئی علاقوں میں پانی کا بہاؤ اتنا زیادہ تھا کہ جانور بہتے ہوئے جا رہے تھے کچھ لوگوں نے جانوروں کو بچانے کی کوشش کی کچھ جانور نکال لیے گئے لیکن کئی بہہ گئے کیونکہ اکثریت افراد نے جانوروں کو بچانے کی کوشش نہیں کی کیونکہ انہیں خود بھی ڈوب جانے کا خطرہ موجود تھا ۔
وہ کہتے ہیں کہ لائیو اسٹاک کا محکمہ نصیرآباد میں مکمل خاموش ہے ایک موسم میں بھینسوں کے منہ میں چھالے پڑتے ہیں جسکا ایک انجیکشن گوبی ہے وہ تک محکمہ لائیو اسٹاک کے پاس موجود نہیں ہے ۔
جانوروں کے ڈاکٹرز نجی میڈیکل سے دوائیاں خریدنے کی پرچی دے دیتے ہیں ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ قدرتی آفات میں جانوروں کو بچانے کے لیے محکمہ لائیو اسٹاک کی کوئی ریسکیو ٹیم موجود ہوتی۔
کوئٹہ شہر کے رہائشی فراز احمد پیشے کے اعتبار سے قصاب ہیں لیکن وہ عید الضحٰی سے قبل جانور خرید کر ائیرپورٹ روڈ پر لگنے والی بڑی بکرا منڈی میں مختلف قسم کے بیل بھی فروخت کرتے ہیں ۔
فراز احمد کے مطابق موجودہ سال مہنگائی زیادہ ہونے کی وجہ سے قربانی کے جانوروں کے دام ویسے ہی زیادہ ہوں گے لیکن سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے جانوروں کے ہونے والے نقصان کی وجہ سے قربانی کے جانوروں کی تعداد میں کمی کا بھی سامنا ہوگا جس کی وجہ سے ممکن ہے کہ جانور مزید مہنگے ہوں ۔
وہ کہتے ہیں کہ آجکل قصابوں کو اچھا جانور ملنا مشکل ہور ہا ہے ۔قربانی کے لیے تو جانور کے کئی لوازمات ہوتے ہیں سیلاب کے دوران کئی جانوروں کے سینگھ ، دانت اور دیگر اعضاء بھی متاثر ہوئے ہیں جو قربانی کے لیے نقص کا باعث ہوں گے۔
ڈی جی ریسرچ محکمہ لائیو اسٹاک محمد کامران کہتے ہیں کہ بلوچستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کا روزگار مالداری سے وابستہ ہے ۔
سال 2022میں آنے والے سیلاب میں ہلاک ہونے والے جانوروں کی تعداد 8 لاکھ سے بھی زائد ہوسکتی ہے ، کئی جگہ سے اب بھی ڈیٹا اکھٹا کیا جارہا ہے ۔
مارے جانے والے جانوروں میں گائیں، بھنسیں ، اونٹ ، بکرے بکریاں اور بھیڑ دنبے وغیرہ شامل ہیں جس کی وجہ سے صوبے کے لائیو اسٹاک کو شدید نقصان ہوا ہے ۔
محمد کامران کہتے ہیں کہ سیلاب کے فوری بعد سے جانوروں میں مختلف بیماریاں بھی پھیلی ہیں اور پھر سرد موسم آنے سے بھی جانور بیمار ہوئے جن کے لیے محدود میسر وسائل سے ویکسینشن کا عمل شروع کرتے ہوئے میڈیکل کیمپ بھی لگائے گئے اور 5 کروڑ کی مفت ادوایات بھی تقسیم کی گئیں۔
وہ کہتے ہیں کہ مالداروں میں جانوروں کی بیماری اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی کی کمی بھی مالداری کے شعبے کو پروان چڑھانے میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ ہے۔
ترجمان بلوچستان فرح عظیم شاہ کہتی ہیں کہ سیلاب نے بلوچستان کو معاشی طور پرشدید متاثر کیا ہے ۔ لاکھوں گھر، باغات اور فصلیں تباہ ہوگئی ہیں اس ہی طرح کئی جانور مارے گئے ہیں ۔
وہ کہتی ہیں کہ وفاقی حکومت نے مالداری کے شعبے میں ازالے کی یقینی دہانی کرائی تھی اور ہلاک ہونے والے جانوروں کے مالکان کو جانور کی قیمت یا پھر جانور کی فراہمی کے زریعے معاوضے کی ادائیگی کا کہا ہے لیکن ابھی تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا وہ کہتی ہیں کہ بلوچستان حکومت کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے حکومت پہلے مرحلے میں سیلاب میں جاں بحق افراد کے لواحقین کی مالی امداد کی ہے اور دوسرے مرحلے میں بے گھر افراد کے لیے مشکلات کم کرنے اور زراعت و لائیواسٹاک کے نقصانات کا ازالہ کرنے کے مراحل میں داخل ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News