سینیٹ؛ آج پیش کیا جانیوالا پُرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل کیا ہے؟
اسلام آباد: سینیٹ کے اجلاس میں پُرتشدد انتہا پسندی کی روک تھام کا بل آج پیش کیا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ پر تشدد انتہا پسندی کے خاتمے کا بل 2023 آج ایوان میں پیش کریں گے، پُرتشدد انتہا پسندی سے مراد نظریاتی عقائد، تشدد، مذہبی و سیاسی معاملات میں طاقت کا استعمال ہے۔
اس کے علاوہ فرقہ واریت کی خاطر دھمکانا یا اکسانا، فرقہ واریت کی ایسی حمایت کرنا جس کی قانون میں ممانعت ہے۔ پُر تشدد انتہا پسندی میں کسی فرد یا تنظیم کی مالی معاونت کرنا ہے جو پُر تشدد انتہا پسند ہو۔
بل کے مطابق شیڈول میں شامل شخص کو تحفظ اور پناہ دینا پُر تشدد انتہا پسندی ہے۔ پُر تشدد انتہا پسندی کی تعریف کرنا اور اس کے لیے معلومات پھیلانا پُر تشدد انتہا پسندی میں شامل ہے۔
بل میں کہا گیا کہ حکومت کسی شخص یا تنظیم کو پُر تشدد انتہا پسندی پر لسٹ 1 اور 2 میں شامل کر سکتی ہے۔ لسٹ ون میں وہ تنظیم ہو گی جو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہو، جس کا سربراہ پُر تشدد ہو جبکہ لسٹ ون میں نام بدل کر دوبارہ منظرِ عام پر آنے والی تنظیمیں بھی شامل ہوں گی۔
علاوہ ازیں لسٹ 2 میں ایسے افراد شامل ہیں جو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہوں۔ لسٹ 2 میں پُر تشدد ادارے، لیڈر یا پُر تشدد ادارے کی مالی معاونت کرنے والے بھی شامل ہوں گے۔
انتہا پسندی سے متعلق بل کے مندرجات
حکومت تنظیم کا رویہ دیکھ کر اسے لسٹ ون یا 2 سے نکالنے کا دوبارہ جائزہ لے سکتی ہے۔
متاثرہ تنظیم یا فرد 30 دن میں جائزہ کمیٹی کے سامنے درخواست دائر کر سکے گا۔
متاثرہ تنطیم یا فرد درخواست مسترد ہونے پر ہائی کورٹ میں اپیل کر سکیں گے۔ محکمۂ کسی بھی وقت فرد یا تنظیم کو لسٹ سے نکال سکتا ہے۔
ڈی لسٹ ہونے پر فرد یا تنظیم 6 ماہ زیرِ مشاہدہ رہے گی اور مدت بڑھائی بھی جا سکتی ہے۔
حکومت پُر تشدد افراد کی بحالی اور ڈی ریڈیکلائزیشن کے لیے ڈی ریڈیکلائزیشن سینٹر بنائے گی۔
مجوزہ بل کے متن کے مطابق حکومت پُر تشدد انتہا پسندی کے مقابلے کا ریسرچ سینٹر قائم کرے گی۔ تعلیمی ادارے پُر تشدد انتہا پسندی کے اقدام کی حکومت کو فوری اطلاع دیں گے۔
بل میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ تعلیمی اداروں میں کسی شخص کو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے یا پرچار کی اجازت نہیں ہو گی۔ کوئی سرکاری ملازم نہ خود اور نہ اپنے اہلِ خانہ کو پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث ہونے دے گا۔ پُر تشدد انتہا پسندی کے مواد کو سوشل میڈیا سے فوری ہٹا دیا جائے گا یا بلاک کر دیا جائے گا۔
پرتشدد انتہا پسندی کے مرتکب شخص کو کتنی سزا اور جرمانہ ہوگا؟
بل کے مطابق پُر تشدد انتہا پسندی پر 3 سے 10 سال تک قید کی سزا ہوگی اور 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا اور اس قانون کی خلاف ورزی پر 1 سے 5 سال تک قید اور 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا جبکہ پُر تشدد انتہا پسندی میں ملوث تنظیم کو 50 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔
بل میں مزید کہا گیا کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والی تنظیم کو 20 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا اور جرم ثابت ہونے پر فرد یا تنظیم کی پراپرٹی اور اثاثے ضبط کر لیے جائیں گے جبکہ معاونت یا سازش یا اکسانے پر بھی 10 سال تک قید اور 20 لاکھ روپے جرمانہ ہو گا۔
اس کے علاوہ جرم کرنے والے شخص کو پناہ دینے والے کو بھی قید اور جرمانہ ہو گا تاہم حکومت کو معلومات یا معاونت دینے والے شخص کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
مجوزہ بل کے متن کے مطابق لسٹ میں شامل شخص کو 90 دن سے 12 ماہ تک حراست میں رکھا جا سکے گا، تاہم متاثرہ شخص کو ہائی کورٹ میں اپیل کا حق حاصل ہو گا۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارے فیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں
ٹوئٹر پر ہمیں فالو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
