پی ڈی ایم کے سربراہ اور جمیعت علمائے اسلام ( ف ) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے دبئی میں آصف زرداری اور نواز شریف کی ملاقات پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کو دبئی میٹنگ کے حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کواعتماد میں لیناچاہیے تھا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ اور امیر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی ڈی ایم ایک تحریک تھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، جب محسوس ہوا کہ دفاعی نظام میں عدم استحکام آرہا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا، دبئی میں ہونے والے میٹنگ میں پی ڈی ایم کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا گیا۔
پشاور میں سینئر صحافیوں کے ساتھ غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ سوال پی ڈی ایم میں موجود ہے کہ مسلم لیگ ن نے اب تک اتحاد میں شامل جماعتوں کو دبئی میں ہونے والی میٹنگ کے حوالے سے اعتماد میں کیوں نہیں لیا، دبئی مذاکرات اچانک نہیں بلکہ منصوبہ بندی سے ہوئے اس لیے سب کواعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا۔ پی پی ہمارے اتحاد کا حصہ نہیں اس لیے دبئی مذاکرات کے بارے میں نہیں پوچھ سکتے، پی ڈی ایم ایک تحریک تھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔
ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ عام انتخابات وقت پر ہوں گے، جلد مرکز، سندھ اوربلوچستان میں نگران حکومتیں قائم آجائیں گی، ملک میں معیشت بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین پر تنقید کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ عمران خان امریکا کوگالی بھی دیتا ہے اور اس سے یاری بھی گانٹھی جارہی ہے، عجیب بات ہے کہ وہ عالمی برادری جو قران پاک کی توہین کرتی ہے وہی چیئرمین پی ٹی آئی کی حمایت بھی کرتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی سی پیک اورسرمایہ کاری روکتا ہے اسکے قول وفعل میں تضاد ہے، جب محسوس ہوا کہ دفاعی نظام میں عدم استحکام آرہا ہے تو چیئرمین پی ٹی آئی سے ہاتھ اٹھا لیا گیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو را اور موساد کی سپورٹ حاصل تھی اور آج بھی حاصل ہے۔امید ہے کہ قوم عام انتخابات میں اس فتنے سے ملک کومحفوظ رکھے گی۔
پی ڈی ایم کے سربراہ اور جمیعت علمائے اسلام ( ف ) کے صدر مولانا فضل الرحمٰن نے کا کہنا تھا کہ ہم 2018 اتخابات کے بعد اسمبلیوں کی رکنیت کاحلف نہیں اٹھاناچاہتے تھے تاہم اپوزیشن جماعتوں کی وجہ سے ایساکرنا پڑا، ہمارے لیے بے شمارمشکلات پیداکی گئیں مگر ہم نے تحمل سے کام لیا، ہم چیئرمین پی ٹی آئی کی حکومت کونہیں ہٹاناچاہتے تھے تاہم اپوزیشن کا ساتھ دینے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوئے، فوج ایک ادارہ ہے جس سے اختلاف ممکن نہیں البتہ شخصیات سے اختلاف ہوسکتا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
