
سینیٹ اجلاس آج صبح ساڑھے 10 بجے ہوگا
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں 50 بیسز پوائنٹ شرح سود بڑھنے سے ملکی قرضے میں 300 ارب روپے اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔
تفصیلات کے مطابق سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ شرح سود کے بڑھنے سے ملکی قرضے میں اضافہ ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک 50 بیسز پوائنٹ شرح سود بڑھاتی ہے تو 300 ارب روپے قرض میں اضافہ ہوتا ہے۔
دوران اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ اگر شرح سود میں ایک فیصد کا اضافہ ہوتا ہے تو 600 ارب قرض بڑھ جائے گا، پاکستان جیسی معیشت میں مہنگائی کو کم کرنے کیلئے کیا شرح سود بڑھانا درست ہے؟
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مہنگائی پر قابو پانے کیلئے شرح سود میں اضافہ کیا جاتا ہے، 700 ارب روپے کی کرنسی سرکولیشن کم ہوئی ہے، شرح سود بڑھانے سے بینک ڈیپازٹ میں اضافہ ہوا ہے۔
چیئرمین کمیٹی کا کہنا تھا کہ شرح سود بڑھانے کی وجہ سے 26 ہزار ارب روپے بینکوں میں ڈیپازٹ ہوئے، اگر یہی رقم مارکیٹ میں ہوتی تو عوام کو روزگار کے مواقع ملتے، کارخانے لگتے اور کاروبار ہوتا تو ملکی معیشت بہتر ہوتی۔
شرح سود میں کمی کی سفارش
اجلاس کے دوران سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے ارکان نے شرح سود میں کمی کی سفارش کر دی۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مہنگائی میں مزید کمی کی صورت میں پالیسی ریٹ پر کٹ لگانے پر غور کیا جا سکتا ہے، اس فیصلے کا اختیار مانیٹری پالیسی کمیٹی کے پاس ہے۔
سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ آئی ایم ایف سے بات کی جائے کہ اس سے ملک میں بے روزگاری، بے چینی بڑھ رہی ہے، پاکستان کے حالات خراب ہوئے تو آئی ایم ایف کو قرض کی واپسی مشکل ہو جائے گی، واپڈا اور شرح سود کی وجہ سے صنعت بیٹھ گئی ہے۔
“کمرشل بینکوں میں صارفین کا بینک بیلنس محفوظ نہیں”
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کمرشل بینکوں میں صارفین کا 5 لاکھ روپے سے زائد بینک بیلنس محفوظ نہیں، بینک دیوالیہ یا ناکام ہو جائے تو جمع کرائی گئی رقم کو تحفظ حاصل نہیں، بینکوں میں صرف 5 لاکھ روپے تک کی رقوم کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
خزانہ کمیٹی کو بریفنگ دی گئی کہ صارفین کی رقم 5 لاکھ سے زائد جتنی بھی ڈوب گئی اس کو تحفظ حاصل نہیں، 5 لاکھ روپے تک کے ڈیپازٹس رکھنے والے کھاتہ داروں کی شرح 94 فیصد ہے، صرف 6 فیصد اکاونٹ ہولڈرز کا بینک بیلنس 5 لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ 5 لاکھ روپے تک کے اکاونٹ ہولڈرز کو ڈیپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن کے ذریعے ادائیگی ہو گی، ڈیپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے۔
اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر آمنے سامنے
اجلاس میں سولہ پینل کی درآمد پر اوور انوائنسگ اور منی لانڈرنگ کے معاملے پر اسٹیٹ بینک اور ایف بی آر آمنے سامنے آگئے، ملبہ ایک دوسرے پر ڈال دیا۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ ایف بی آر نے گزشتہ اجلاس میں قصور وار بینکوں کو ٹھہرایا، ایف بی آر یہ بتائے انہیں ڈیٹا کہاں سے ملا، معاملے کی تحقیقات ہم نے ہی کیں، متعلقہ اداروں کو رپورٹس بھیجیں۔
دوسری جانب ایف آئی اے حکام نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے ہم سے تفصیلی معاملہ شیئر نہیں کیا، جب سولر پینل درآمد کیے گئے تبھی ملوث عناصر کو پکڑا جا سکتا تھا۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایسے کیسز میں پاکستان کسٹمز کی اکثر سستی دیکھنے میں ملتی ہے، واردات ہونے کے بعد ایف آئی آر درج کر کے ملبہ عدالتوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
دوران اجلاس ممبر کسٹمز ایف بی آر نے کہا کہ 5 سال کے دوران 69 ارب کی اوور انواسئنگ کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، ہم معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں، ہمیں کچھ وقت دیں۔
ممبر کسٹمز پالیسی کا کہنا تھا کہ سولر پینل کی درآمد پر 21 بینکوں سے تفصیلات مانگی ہیں، ایک امپورٹر نے 14 ارب روپے اور دوسرے نے 11 ارب روپے کیش بینکوں میں جمع کروائے، اگر بینک پہلے ریڈ فلیگ لہرا دیتے تو اس کو پہلے روک لیتے، سات کمپنیوں نے پانچ سالوں میں 70 ارب روپے کی منی لانڈرنگ کی، اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ یہ سارا کام اس وقت ہوا جب ملک میں ایل سی کھولنے پر پابندی تھی۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے بتایا کہ جب اسٹیٹ بینک نے درآمد کی اجازت دینا شروع کی تو اس میں یہ مشکوک درآمدات نظر آئیں، یہ تجارتی منی لانڈرنگ تھی، بینکوں نے انکے خلاف 37 دفعہ مشکوک ٹرانزیکشن رپورٹ جاری کی، اگر 20 لاکھ سے زیادہ کیش رقم جمع کروائی جائے تو بینک اس کو ایف ایم یو کو رپورٹ کرتا ہے، ان درآمدات کے ذریعے رقم باہر بھجوائی جا رہی تھیں، سولر کی درآمدات زیرو ریٹیڈ تھیں اسکو انھوں نے رقم باہر بھجوانے کیلئے استعمال کیا۔
ممبر کسٹمز ایف بی آر نے کہا کہ ایف بی آر معاملے پر کسی قسم کا پردہ نہیں ڈالے گا، ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کریں گے۔
چیئرمین کمیٹی نے ایف بی آر کو معاملے کی تحقیقات جاری رکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کی ہی کوتاہی ہے، انہیں ہی تحقیقات کرنے دیں۔
اگر آپ حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہنا چاہتے ہیں تو ہمارےفیس بک پیج https://www.facebook.com/BOLUrduNews/ کو لائک کریں
ٹوئٹر پر ہمیں فولو کریں https://twitter.com/bolnewsurdu01 اور حالات سے باخبر رہیں
پاکستان سمیت دنیا بھر سے خبریں دیکھنے کے لیے ہمارے کو سبسکرائب کریں اور بیل آئیکن پر کلک کریں
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News