
پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دن، سانحہ اے پی ایس کو نو سال مکمل
پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین دن، سانحہ اے پی ایس کو نو سال مکمل ہو چکے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق 2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر پاکستان کو گہری چوٹ پہنچائی گئی، پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جائے گا، یہ ایک قومی سانحہ تھا جس نے ہر پاکستانی کے دل کو زخمی کیا، سانحہ آرمی پبلک اسکول کو 9 سال بیت گئے مگر قوم کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔
16 دسمبر 2014 کو 6 مسلح دہشت گرد آرمی پبلک اسکول پشاور پر حملہ آور ہوئے اور جدید اسحلے سے لیس امن دشمنوں نے نہتے بچوں اور اساتذہ کو نشانہ بنایا، انسانیت کے لفظ سے ناآشنا افراد نے 132 بچوں سمیت 149 افراد کو شہید کیا۔
آرمی پبلک اسکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کی فرض شناسی برسوں یاد رکھی جائے گی، بہادر خاتون نے اپنی جان قربان کر دی لیکن دہشت گردوں اور بچوں کے بیچ دیوار بن کر کھڑی رہیں۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اے پی ایس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا انتقامی ردعمل قرار دیا، ان دہشتگردوں کو افغانستان میں ٹرینگ دی گئی تھی اور اسلحہ و بارود بھی افغانستان سے لے کر آۓ تھے، دلوں کو دہلا دینے والے اس سانحے نے ہر آنکھ اشک بار کر دی اور پوری قوم کو بِلا کسی مذہبی و سیاسی تفریق کے یکجا کر دیا۔
خیبر سے کراچی تک پورے پاکستان ان معصوموں کو بے دردی سے شہید کرنے پر سوگوار تھا، بزدل دہشت گردوں نے اسکول پر حملہ کر کے علم کی شمع بجھانا چاہی اور مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنایا مگر قوم کے حوصلے پست نہ کر سکے، ملک بھر میں ہر مکتبہ فکر کے افراد کی جانب سے اس لادین اور ظلم و بربریت کا پرچار کرنے والی دہشت گردانہ اور شر پسندانہ سوچ کو رد کر دیا گیا۔
سانحہ اے پی ایس دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک واضح پالیسی اور متفقہ لائحہ عمل ”نیشنل ایکشن پلان‘‘ کی صورت میں مرتب کرنے کا باعث بھی بنا، پوری دنیا کی جانب سے اس دلسوز واقعے کی مذمت کی گئی اور ان دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دینے کا پُرزور مطالبہ بھی کیا گیا۔
دہشتگرد مسلسل افغانستان کی سر زمین کو استعمال کرتے ہوۓ پاکستان کے معصوم شہریوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، آج بھی پاکستان کی افواج اور عوام افغانستان کے دہشتگردوں سے نبردآزما ہے۔
سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجڑ گئیں
16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پشاور میں ہونے والے دل خراش واقعے نے سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجاڑ دیں، کس کو پتا تھا کہ 16 دسمبر کو طلوع ہونے والا سورج پاکستان کی سرزمین کو نونہالان کے خون سے رنگ دے گا، ابھی پاکستانی قوم سکوت ڈھاکہ کے غم میں ڈوبی ہوئی تھی کہ 16 دسمبر 2014 کو اے پی ایس پشاور کے واقعے نے قیامت ڈھا دی، اس دن ہر دل اور آنکھ اس افسردہ واقعہ پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔
پاکستانی قوم 16 دسمبر کے تمام شہداء کو خراج تحسین پیش کرتی ہے اور شہدا کے لواحقین سے اظہار ہمدردی کرتی ہے۔
شہداء اے ایس کے والدین کا حوصلہ پہاڑ کے جتنا بلند
دہشتگردوں نے جس سفاکی کے ساتھ بچوں کو شہید کیا قوم اسکو بھولی نہیں ہے۔
والدہ محمد علی شہید کا کہنا تھا کہ محمد علی شہید نہایت ہی زندہ دل اور یارو کا یار تھا، اسکول میں بھی گولڈن بواۓ کے نام سے جانا جاتا تھا، وہ بچپن سے ماماز بواۓ تھا، علی میرے بہت قریب تھا، آج بھی مجھ کوئی پوچھتا ہے تو میرا ایک بیٹا اور تین بیٹاں ہیں کیونکہ شہید تو زندہ ہوتا ہے، میرا بیٹا ایس ایس جی میں کمانڈو بننا چاہتا تھا، شاید اس نے لڑائی لڑی ہے پھر زندگی نے وفا نہیں کی،علی مجھے کہتا تھا کہ ماما میں آپکو وہ خوشی دونگا کہ آپ یاد رکھیں گی، مجھے نہیں پتا تھا کہ وہ شہادت کی بات کر رہا تھا۔
والد شایان ناصر شہید کا کہنا تھا کہ شایان ناصر شہید سائینسدان بننا چاہتا تھا، فزکس میں ہمیشہ اول آتا تھا، شایان ناصر کرکٹ کھیلنے کا شوق رکھتا تھا، سب سے چھوٹا تھا تو سب گھر والوں کی آنکھوں کا تارہ تھا، میرا یہی پیغام ہے کہ پاک فوج کے خلاف جو پروپئیگنڈا کر رہے ہیں وہ نہ کریں کیونکہ مشہور قول ہے کہ ملک میں اپنی نہیں تو کسی اور کی فوج ہو گی، ہمیں پاک فوج پر فخر ہے۔
بہن ننگیال اور شموئیل طارق کا کہنا تھا کہ ننگیال اور شموئیل شہید کے جانے بعد دنیا ادھوری رہ گئی ہے، اے پی ایس میں داخلے کا مقصد تھا کہ پاک فوج کو جوائن کرے، خود بھی وہ پاک فوج میں شمولیت کے خواہش ظاہر کرتے تھے، الحمد اللہ ہم فخر کرتے ہے کہ ہمارے بھائی شہید ہیں۔
انقرہ میں اے پی ایس پشاور دہشت گرد حملے کے شہداء کی یاد میں تقریب
2014 میں آرمی پبلک اسکول پشاور پر ہونے والے وحشیانہ دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے اسکول کے بچوں اور عملے کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے 15 دسمبر 2023 کو انقرہ کے علاقے کیسورین میں تقریب منعقد ہوئی جس میں پاکستانی سفیر، جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی، کیسورین میونسپلٹی اور پاکستان ایمبیسی کے عہدیداروں نے شرکت کی۔
پاکستان کے ساتھ اظہار یک جہتی کا اعادہ کرتے ہوئے ترکی کے میئر نے اے پی ایس دہشت گردانہ حملے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کے عوام زندگی کے تمام پہلوؤں بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔
میئر نے ہندوستان کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو ان کے ناقابل تنسیخ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے ترکی کی حمایت کا اعادہ کیا۔
سفیر جنید نے اظہارِ یکجہتی اور دہشت گردانہ حملوں میں شہید ہونے والی قیمتی جانوں کی یاد کو زندہ رکھنے پر ترک بھائیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ 144 درخت دہشت گردی سے لڑنے کے لیے پاکستان اور ترکی کے 30 کروڑ عوام کے پختہ عزم کی عکاسی کرتے ہیں، دونوں ممالک کو دہشتگردی کی وجہ سے بے شمار نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
بھارت کے غیر قانونی طور پر زیر قبضہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت سے متعلق بھارتی سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے سفیر نے کہا کہ یہ فیصلہ دہشت گردی کی عکاسی کرتا ہے، جموں و کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے، جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق کیا جانا ہے، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر بھارتی آئین اور بھارتی عدالتوں کی بالادستی نہیں ہے۔
سفیر جنید نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اصولی موقف اپنانے پر ترک صدر رجب طیب اردوان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کشمیریوں کے حق خودارادیت کے جائز مقصد کے لیے اپنی مکمل سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا۔
بعد ازاں، سفیر نے میئر کیسیورین اور دیگر معززین کے ہمراہ اے پی ایس کے شہداء کی یادگار پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔
نگران وزیرِ اعظم کا سانحہ آرمی پبلک اسکول کی نویں برسی پر پیغام
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ نو برس پہلے آج کے دن دہشتگردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور پر بزدلانہ حملہ کیا، یہ ایک ایسا سانحہ تھا جس نے دنیا بھر کی آنکھیں نم کر دیں، آج بھی جب اس دن کو یاد کرتا ہوں تو آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، نو برس قبل دشمن نے ہمارے مستقبل ہمارے چمن کی ننھی کونپلوں کو روند کر دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس قوم کے حوصلے پست کرنے کی ناکام کوشش کی۔
وزیرِ اعظم نے کہا کہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحہ عظیم نے اس قوم کے عزم کو مضبوط تر کیا، پوری قوم کی ہمدردیاں ان والدین کے ساتھ ہیں جن کے بچوں نے اس سانحے میں عظیم قربانی دی، مجھ سمیت پوری قوم اپنے پھول سے بچوں کی اس عظیم قربانی پر آج انہیں یاد کرتی اور خراجِ تحسین پیش کرتی ہے، پرنسپل آرمی پبلک اسکول شہید طاہرہ قاضی اور دیگر نہتے اساتذہ اپنے طالب علموں کو بچانے کیلئے ان درندوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹے رہے اور جام شہادت نوش کیا، آج کا دن ان عظیم شہیدوں کی عظیم قربانی کو یاد کرنے کا بھی دن ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ انسانی تاریخ میں قربانی کی ایسی تابندہ مثالیں بہت کم ملتی ہیں، پاکستانی قوم دہشتگردی کی جنگ جیت چکی ہے، پاکستانی قوم نے دشمن کے پاکستان میں شر انگیزی اور انتشار پھیلانے کے تمام حربے ناکام کر دیئے، جس قوم میں شہید طاہرہ قاضی اور شہید اعتزاز حسن جیسے نڈر لوگ دوسروں کو بچانے کیلئے اپنی جان کی بھی پرواہ نہ کریں، اس قوم کو بزدل دہشتگرد کبھی ہرا نہیں سکتے، پوری قوم کو اپنے ان عظیم شہداء اور ان کے اہلِ خانہ پر فخر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم سانحہ آرمی پبلک سکول کی یاد میں غم زدہ ضرور ہے مگر پہلے سے زیادہ مضبوط اور اس عفریت کے خلاف متحد ہے، پاکستانی قوم وطن کے امن کو تباہ کرنے کا سوچنے والے تمام شرپسندوں کو جہنم واصل کرنے تک اپنی سیکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، پولیس رینجرز اور پاک فوج سمیت سیکیورٹی فورسز کے تمام اہلکار جنہوں نے اس سانحے کے بعد دھشتگردوں کو انکی کمین گاہوں سے دھونڈ ڈھونڈ کر انکے انجام تک پہنچایا تو ان کو قوم خراج تحسین پیش کرتی ہے، دہشتگردوں اور پاکستان کے امن کے دشمنوں کو میرا یہ واضح پیغام ہے کہ پاکستانی قوم متحد ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News