
اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہریار آفریدی کی ایم پی او کے تحت نظر بندی کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ سنا دیا
سائفر کیس میں جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے 59 صفحات پر مشتمل سائفر کیس میں جیل ٹرائل کالعدم قرار دینے کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ اوپن کورٹ کا اصول جمہوری معاشرے کی پہچان اور اس کا اطلاق تمام عدالتی کارروائیوں پر ہوتا ہے عوام کی عدالت تک رسائی جوڈیشل پراسیس کی دیانت کی ضمانت دیتی ہے، عدالتوں کی آزادی اور غیر جانبداری برقرار رکھنے کے لیے اوپن کورٹس ضروری ہیں، نظام انصاف پر عوام کے اعتماد کے لیے اوپن کورٹس ضروری ہیں، صرف جیل میں ہونے کے باعث عدالتی کارروائی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔
جاری کردہ فیصلے کے مطابق جیل ٹرائل میں بھی پبلک کو کورٹ روم میں رسائی ملنا ضروری ہے، قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد جیل ٹرائل سے ملزم کے حقوق متاثر نہیں ہوتے، جیل ٹرائل کا فیصلہ ملزم اور پراسیکیوشن دونوں کے لیے مساوی ہونا چاہئے، فریقین کو سنے بغیر ملزم کو معمول کی عدالت میں اوپن ٹرائل کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا، یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بانی چئیرمین پی ٹی آئی کے اعتراضات کو نہیں سنا گیا۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ ملزم گواہوں اور خود اپنی سیکیورٹی کے لیے مجسٹریٹ ان کیمرا ٹرائل کا آرڈر بھی کر سکتا ہے، حیران کن ہے کہ 13 اکتوبر کی جیل ٹرائل کی منظوری کے باوجود جج نے دوبارہ منظوری کا پراسیس کیوں شروع کیا؟
جاری کردہ فیصلے کے مطابق 8 نومبر کا خط اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ جج نے محسوس کیا کہ جیل کارروائی قانون کے مطابق نہیں، جج کو احساس ہوا کہ لاہور ہائیکورٹ رولز کے تحت جیل ٹرائل کی وفاقی حکومت سے منظوری نہیں لی گئی، جج نے پہلے تین خطوط سیکرٹری قانون کو لکھے جبکہ 8 نومبر کا خط وفاقی حکومت کو لکھا، جج کو چاہیے تھا کہ وہ جیل ٹرائل شروع کرنے سے پہلے یقینی بناتے کہ اس کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کئے گئے، 12 نومبر جب وفاقی حکومت نے جیل ٹرائل کی منظوری دی تب فرد جرم عائد ہو کر تین گواہوں کے بیانات ہو چکے تھے، قانونی تقاضے پورے نہ ہونے کے باعث جیل ٹرائل کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی قانونی ہے، جو چیف جسٹس کی مشاورت سے ہوئی یہ سوال کہ کیا اب ٹرائل اسی جج کو کرنا چاہیے کہ جس نے پہلے ٹرائل کیا یہ اپیل کے سکوپ سے باہر ہے، اگر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کو کوئی خدشہ ہو اور مضبوط گراؤنڈ ہو تو وہ درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ شفافیت اور اوپن ٹرائل کیلئے امریکا، کینیڈا، بھارت سمیت دیگر ممالک کے عدالتی فیصلوں کے حوالہ جات کو بھی فیصلے کا حصہ بنایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News