کراچی کے درخت، تندور کے ہوتے نظر
درخت کے بغیر انسانی بقا کا تصور ممکن نہیں، یہ نہ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن مہیا کرتے ہیں، بلکہ ان کی موجودگی زمین کی حدت کو کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
ماضی میں کیے جانے والے بہت سے مطالعے انسانی صحت اور ماحول پر درختوں کے حیران کن اثرات کے بارے میں آگاہ کر چکے ہیں، درخت درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکتے ہیں، درخت اور پودے لگانے سے ما حول ٹھنڈا اور خوشگوار رہتا ہے۔
درخت انسان کو چھت فراہم کرنے، زمین کے کٹاؤ کو روکنے اور ماحول کو مضر صحت گیسوں سے پاک کرکے آپ کوصحت مند کو رکھنے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔
کراچی کا موسم ہر گزرتے وقت کے ساتھ گرم ترین ہوتا جارہا ہے موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں پیپل کے درخت کا سایہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ جن شہروں میں درخت کثیر مقدار میں موجود ہوتے ہیں وہاں کا درجہ حرارت دوسرے شہروں کی نسبت کم ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں زمین کی بڑھتی ہوئی حدت جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے کی ایک بڑی وجہ درختوں کی کٹائی بھی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی یہی سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔
ایک وقت تھا جب موسم گرما میں کراچی شہربادلوں سے دھکا ہوا رہتا تھا اور درجہ حرارت 28 سے 33 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا تھا اور سمندرکی ٹھنڈی ہوائیں شہر کو گھیرے رکھتی تھیں لیکن اب یہ باتیں خواب سی لگتی ہیں۔
شہر کراچی میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کبھی ہاؤسنگ اسکیموں، گرین لائن بس سروس، روڈ وسیع کرنے اورسوریج کی نکاسی کے لیے نالوں کی تیاری کے نام پر درختوں کی بے دریغ کٹائی کا سلسلہ جاری ہے۔ جس کی وجہ سے اس شہر کی آب وہوا میں حددرجہ بگاڑ پیدا ہوچکا ہے اور موسم گرما شدید اور طویل ہوتا جارہا ہے۔
تاہم پچھلے کئی برسوں سے کراچی کے تندور اور بیکری مالکان نیم، پیپل سمیت کئی سو برس پرانے اور گھنے درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر اسے تندور میں استعمال کر رہیں ہیں، جبکہ دوسرے شہروں سے آنے والے زیادہ تر افراد کے گھروں میں گیس کی کنکشن نہیں ہے وہ گیس کے سلینڈر لینے کے بجائے آس پاس کے درختوں کو کاٹ کر گھروں میں کھانے پکانے کے لیے استعمال کر رہیں ہیں۔
اب تک شہر میں سیکڑوں درختوں کو کاٹ کر ختم کر دیا گیا یہاں یہ بات جان کر آپ کو انتہائی حیرت ہوگی کہ یہ درخت کراچی کے ہر علاقے میں کاٹے جارہے ہیں۔
آپ سڑکوں پر چلتے ہوئے کبھی سوزوکی تو کبھی گدھا گاڑی پر ان درختوں کی شاخوں کو دیکھ سکتے ہیں۔

یہ تمام افراد درختوں کی پہلے ایک طرف سے چند شاخیں کاٹ دیتا ہے پھر کچھ دنوں کے بعد دوسری جانب کی شاخیں۔ اس طرح لوگوں کو احساس ہی نہیں ہوتا کہ درخت کتنا گھنا تھا اور پھرآخر میں اسے مکمل کاٹ دیا جاتا ہے۔
تین کروڑ سے زائد آبادی والے اس شہر میں ہزاروں کی تعداد میں تندور موجود ہیں جن میں سے اکثریت غیر مقامی لوگوں کی ہے یہ لوگ تندور میں گیس کا کنکشن یا سلینڈر لینے کے بجائے درختوں کی لکڑیوں کو بطور ایندھن استعمال کررہے ہیں ایک تندور کے مالک کے مطابق یہ لکڑی شہر بھرکے درختوں کو کاٹ کر پنجاب چورنگی سے 500 روپے فی من میں خریدی جاتی ہے۔
ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ وہ اس شہر میں درختوں کی کٹائی کو فوری روکیں اور لکڑی پر چلنے والے تندور کو بند کریں۔
جبکہ شہرقائد میں ایسے تمام تندور جو لکڑیوں پر روٹی تیار کرتے ہیں عوم الناس سے التجا ہے کہ ان سے روٹی نہ خریدیں۔
اپنے اردگرد کے ماحول کو بہتربنانے اور گرمی کی شدت کو کم کرنے کے لیے زیادہ زیادہ درخت لگائیں۔ اور اپنے آس پاس کہیں بھی درختوں کو کاٹتے ہوئے دیکھیں تو انہیں روکیں، کیونکہ یہ شہرآپ کا ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
