کمشنر اور آئی جی اسلام آباد کی پریس کانفرنس؛ امن و امان کی بحالی اور احتجاج پر ردعمل
اسلام آباد: کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا اور آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے اسلام آباد کی موجودہ صورتحال پر ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے شہر میں امن و امان کی بحالی اور احتجاجی مظاہروں کے دوران ہونے والی کارروائیوں کی تفصیلات فراہم کیں۔
کمشنر اسلام آباد محمد علی رندھاوا نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد کے تمام راستے کھلے ہیں اور شہر کو کلیئر کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام آباد کی تمام مارکیٹس اور کاروباری مراکز دوبارہ کھل گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد پر حالیہ طور پر دھاوا بولا گیا تھا لیکن ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ “ہم اسلام آباد میں کسی بھی غیر پاکستانی یا پاکستانی کو دھاوا نہیں بولنے دیں گے۔”
کمشنر نے بتایا کہ تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اسٹیٹ کی رٹ کو بحال کیا ہے اور شہر میں امن قائم کیا ہے۔ “بیلاروس کے صدر اس وقت پاکستان میں ہیں اور ہم نے افغان نیشنل کو پکڑا ہے۔ ہم آئین اور قانون کی عملداری ہر حال میں یقینی بنائیں گے۔” انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں احتجاج کرنے کے لیے ایک مخصوص طریقہ کار ہے اور اس حوالے سے قانون سازی کی جاچکی ہے۔ “اگر درخواست آئے گی تو اس پر غور کیا جائے گا۔ احتجاج کرنے والوں کو سنگجانی میں مخصوص جگہ فراہم کی جا سکتی ہے۔”
آئی جی اسلام آباد علی ناصر رضوی نے اس موقع پر کہا کہ احتجاج آئینی اور قانونی حق ہے لیکن احتجاج کے دوران اگر اسلحہ استعمال کیا جائے، پولیس اور رینجرز پر حملے کیے جائیں اور املاک کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ احتجاج نہیں بلکہ دہشت گردی کے مترادف ہوگا۔ “ہم کسی بھی صورت میں دہشت گردی کو برداشت نہیں کریں گے اور اس طرح کے واقعات کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔”
انہوں نے واضح کیا کہ احتجاج کے دوران جدید اسلحہ کا استعمال کیا گیا اور دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئیں۔ “24 نومبر کو یہ سلسلہ شروع ہوا اور 25 نومبر کو اسلام آباد میں ٹکراؤ ہوا۔ مظاہرین نے خطرناک آنسو گیس استعمال کی، غلیلیں پھینکی گئیں اور صوبے کے وسائل استعمال کیے گئے۔ جی 10 اور زیرو پوائنٹ پر سیدھی گولیاں ماری گئیں۔ آئی جی نے مزید کہا کہ پولیس اور رینجرز پر فائرنگ کی گئی اور سرکاری آنسو گیس کو پولیس کی طرف دھکیلنے کے لیے بڑے پنکھوں کا استعمال کیا گیا۔
آئی جی نے بتایا کہ مشترکہ کارروائی کے دوران 954 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں 600 سے زائد کارکنان اور 210 گاڑیاں شامل تھیں۔ ان سے اسلحہ بھی پکڑا گیا جس میں کلاشنکوف اور بھاری اسلحہ شامل تھا۔ انہوں نے کہا کہ 71 سیکورٹی فورسز کے اہلکار زخمی ہوئے جن میں سے 52 اہلکار صرف کل زخمی ہوئے اور 27 اہلکار گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ اس دوران رینجرز کے 3 اہلکاروں کو شہادت نصیب ہوئی۔
آئی جی اسلام آباد نے اس بات کی نشاندہی کی کہ مالی نقصان کروڑوں روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ “پولیس نے جب اس احتجاج کو روکا تو سیدھے فائر کیے گئے۔ یہ اسلحہ اور تشدد کے ذریعے ایک واضح پیغام تھا کہ ہم اس طرح کے اقدامات کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔”
کمشنر اسلام آباد اور آئی جی اسلام آباد نے آخر میں کہا کہ اسلام آباد کے رہائشیوں کا امن اور سکون ہر صورت میں یقینی بنایا جائے گا اور آئندہ ایسا احتجاج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی جس میں تشدد اور دہشت گردی کا عنصر ہو۔
انہوں نے شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے آئینی حق کا استعمال کریں لیکن قانون کے دائرے میں رہ کر اس کو یقینی بنائیں تاکہ شہر میں امن قائم رہ سکے اور قانون کی حکمرانی برقرار رہے۔
اس پریس کانفرنس میں کمشنر اور آئی جی نے واضح طور پر اعلان کیا کہ اسلام آباد میں کسی بھی غیر قانونی احتجاج کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور کسی بھی دہشت گردانہ کارروائی کو سختی سے نمٹا جائے گا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
