
جہلم میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے دینہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو کھلونا نہیں بنانا چاہیے، آئین کھلونا نہیں ہے، اور پارلیمنٹ کھلونا نہیں ہے۔
مختلف سیاسی اور قانونی امور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کے حوالے سے بات کی اور کہا کہ وہ اس بل پر صدر مملکت سے بات کر چکے تھے اور اسلام آباد پہنچ کر صحافیوں سے رابطہ کریں گے تاکہ اس حوالے سے مزید تجاویز دی جا سکیں۔
تاہم، مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انہیں صبح یہ اطلاع ملی کہ صدر مملکت نے پیکا ترمیمی بل پر دستخط کر دیے ہیں، جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہمیں کچھ کہا جائے اور وہاں کچھ کیا جائے، ہم اس حق میں نہیں ہیں۔
مولانا نے اس بل کو ملکی صحافت پر براہ راست اثر ڈالنے والا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس پر تحفظات کو دیکھنا اور صحافیوں کی تجاویز پر مشاورت کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا کی خرابیوں کے حوالے سے کہا کہ اس پر صحافیوں اور ان کے ساتھ ان کے اختلافات نہیں ہیں لیکن کچھ چیزوں کا غلط استعمال ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے مزید کہا کہ جب بھی انہوں نے شرعی قوانین کی بات کی تو اس پر سوالات اٹھائے گئے، مگر انہوں نے سوال کیا کہ اگر اللہ کے قانون کو مؤخر کیا جا سکتا ہے تو کسی اور کی خواہشات کو کیوں نہیں مؤخر کیا جا سکتا؟
انہوں نے انتخابات کے حوالے سے کہا کہ وہ دھاندلی کے ذریعے بنائی جانے والی حکومتوں کو تسلیم نہیں کرتے اور پورے ملک میں از سر نو انتخابات کی ضرورت پر زور دیا۔
مولانا نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ پی ٹی آئی سے سیاسی ملاقاتوں کو معمول کی بات سمجھتے ہیں، لیکن اس ملاقات کی کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سواری ہیں اور حکومت ڈرائیور ہے، سواریوں کو کیا پتہ کدھر جانا ہے۔
انہوں نے پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے امریکہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، اور کہا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے، ہمیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ہے، نہ کہ کسی دوسرے ملک کی پالیسیوں کے تحت۔
مولانا نے مزید کہا کہ امریکہ افغانستان میں ناکام ہو چکا ہے اور اسرائیل کی حمایت میں بھی شکست کھا چکا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “پاکستان کے لیے اگر امریکہ کا کوئی اقدام مثبت ہوا تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے، لیکن اگر یہ نقصان دہ ہوا تو جمعیت علمائے اسلام آواز اٹھاتی رہے گی۔”
اختتام میں مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ان کے نواز شریف اور شہباز شریف سے احترام کے تعلقات ہیں لیکن وہ کسی دوسری پارٹی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News