
مولانا فضل الرحمان کا امریکی صدر کے غزہ سے متعلق ہرزہ سرائی پر دوٹوک موقف سامنے آگیا
اسلام آباد: جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمان کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ سے متعلق ہرزہ سرائی پر دوٹوک موقف سامنے آگیا ہے۔
سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی ملاقات میں غزہ پر ہرزہ سرائی پر امت مسلمہ سراپا احتجاج ہے جب کہ فلسطین پر فلسطینیوں کا حق ہے اور فلسطینیوں کی جدوجہد اپنی آزادی کی جنگ ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اسرائیل ایک صیہونی قبضے کا نام ہے، فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو آج تک فلسطین نے تسلیم نہیں کیا جب کہ پوری امت مسلمہ فلسطینیوں کے شانہ بشانہ ہے۔
انہوں نے امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ تم نے افغانستان پر بھی قبضہ کرنا چاہا اور بیس سال وہاں خون بہایا، افغانستان میں انسانی حقوق پامال کئے اور ان پر جنگ مسلط کی لیکن وہاں شکست کا سامنا کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پندرہ مہینے تک اسرائیل نے امریکی پشت پناہی میں عام انسانیت پر بمباری کی، غزہ اور خان یونس کو کھنڈرات بنا دیا گیا، اب بھی ملبے میں ہزاروں لوگ دبے ہوئے ہیں۔
سربراہ جے یو آئی کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سے زیادہ فلسطینی شہید کئے گئے جس میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی ہے، اس جرم اور سفاکیت کی انسانی جرم اور جنگی جرم کے علاوہ کیا تعبیر ہوسکتی ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ امریکا نے اس طرح کے جرم کا ارتکاب کرکے صدام حسین کو تختہ دار تک پہنچایا، معمر قذافی کو اقتدار سے ہٹا کر جام شہادت سے ہمکنار کیا جب کہ اسرائیلی اور صیہونی قوتوں کی اس نسل کشی پر امریکا کی رحم کی نظریں ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ آج بھی امریکا ان کو سپورٹ کر رہا ہے اورغزہ پر قبضے کی باتیں کررہا ہے، واضح پیغام دیتا ہوں کہ کوئی مائی کا لال غزہ پر قبضہ نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کرنے پر عرب لیگ کے موقف کو سراہتا ہوں۔
سربراہ جے یو آئی نے مزید کہا کہ ٹرمپ بیان پر واضح موقف لاکر قوم کی ضمیر کی ترجمانی کرے، اس ابہام کے ساتھ یہ حکمران کسی طور قابل قبول نہیں، یہ ایک حساس معاملہ ہے اور پوری امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے قوم سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ہم فلسطینی بھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں، قوم سے مالی معاونت کی اپیل کرتا ہوں جب کہ جے یو آئی کارکن ہر سطح پر مخیر حضرات کو اس طرف متوجہ کریں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News