
کراچی: ایم کیو ایم پاکستان کے رہنماؤں نے بہادر آباد مرکز میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میئر کراچی کے دعوؤں اور سندھ حکومت کی ناکام پالیسیوں پر کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما حیدر عباس رضوی نے مرکز بہادرآباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کراچی کی موجودہ سنگین صورتحال پر گہرے افسوس اور خدشات کا اظہار کیا اور حکومتوں سے فوری، جنگی بنیادوں پر کراچی اسٹریٹجک ماسٹر پلان نافذ کرنے کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ شہر کو قصداً تنزلی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اور عام آدمی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ کراچی قائدِ اعظم محمد علی جناح کا شہر اور ملک کا معاشی حب ہے جو تقریباً 70 فیصد ریونیو یا ٹیکس پیدا کرتا ہے، اس لیے اس کی بگڑی حالت کسی سے چھپی نہیں۔
انہوں نے سخت الفاظ میں کہا کہ آج ہم سب اہلِ کراچی کی حالت پر نوحہ کناں ہیں اور عوام کو درپیش حقیقتیں اجاگر کرنا ہمارا فرض ہے۔ روزِ مرہ کے حالات میں اہلِ کراچی ڈمپر اور ہیوی ٹریفک کے رحم و کرم ہیں اور سالانہ بنیاد پر ڈمپر مافیا کی وجہ سے 400 سے 600 سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
حیدر عباس رضوی نے بتایا کہ حالیہ بارشوں کے دوران شہر کی حالت خراب رہی اور کئی علاقوں میں پانی کھڑا رہ گیا۔ میئر کراچی صرف ان سڑکوں پر کھڑے دکھائی دیتے ہیں جہاں پانی نہیں کھڑا ہوتا جب کہ عوام شہر کے ڈوبتے ہوئے مناظر برداشت کر رہے ہیں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ سیوریج کا آلودہ پانی، ابلتے گٹر اور ناقص نکاسی نظام شہریوں کو بیمار کر رہے ہیں اور پورا شہر ٹینکروں سے پانی خریدنے پر مجبور ہے۔ “کراچی کے لوگ 20 سال سے پانی خرید کر پی رہے ہیں۔
کُتے، ریبیز ویکسین اور حکومتی فنڈز
انہوں نے دعویٰ کیا کہ صوبائی سرپرستی میں سڑکوں اور عوامی مقامات پر کتے کھلے پھر رہے ہیں اور بچوں کو کاٹنے کے خلاف ریبیز ویکسین دستیاب نہیں۔ انہوں نے سندھ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ریبیز ویکسینیشن کے لیے ڈھائی ارب روپے ملنے کے باوجود حالت جوں کی توں ہے اور کسی نے اس کا حساب نہیں دیا۔
سڑکیں، منصوبے اور بدعنوانی کے الزامات
انہوں نے کراچی کی سڑکوں کی حالت، ناقص تعمیرات، یونیورسٹی روڈ اور حب کینال جیسے منصوبوں میں مبینہ بدعنوانی پر بھی سوالات اٹھائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ورلڈ بینک کے فراہم کردہ اربوں روپے اور حالیہ بنائے گئے منصوبے پانی میں بہہ گئے یا تباہ ہوگئے جب کہ میئر کے جاری کردہ احکام اور متعلقہ اداروں کی خاموشی عوام کا اعتماد ختم کر رہی ہے۔
قانون، ماسٹر پلان اور آئینی مطالبات
حیدر عباس رضوی نے یاد دلایا کہ کراچی کا ماسٹر پلان 1991 میں تیار ہوا اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 15 دسمبر 2007 کو کراچی بلدیاتی اسمبلی نے اس ماسٹر پلان کی منظوری دی تھی جس پر وفاقی، صوبائی، کنٹونمنٹ اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے دستخط موجود ہیں۔ ان کے بقول اس پلان کو دانستہ طور پر پسِ پشت ڈال دیا گیا اور سندھ حکومت نے اسے عمل میں نہیں لایا۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 149 کے تحت وفاق اور صوبائی حکومت کو ہدایت دی جائے کہ کراچی اسٹریٹجک ماسٹر پلان کو جنگی و ہنگامی بنیادوں پر نافذ کیا جائے، ماسٹر پلان کے برخلاف خرچ شدہ اربوں روپے کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کی جائے اور جن افراد نے اس مجرمانہ عمل میں حصہ لیا ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
قانونی اقدام اور شہری تحفظ
پبلک لِٹیگیشن کے معروف وکیل طارق منصور کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں دائر کی گئی آئینی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے حیدر رضوی نے کہا کہ اس دستاویز پر تمام اسٹیک ہولڈرز کا اتفاق موجود ہے اور عملدرآمد آئینی و قانونی تقاضہ ہے۔
انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وکیل طارق منصور کو دی گئی دھمکیوں کا نوٹس لیا جائے اور ان کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔
آخر میں حیدر عباس رضوی نے اعلان کیا کہ اب وقت ہے ان سب حقائق سے پردہ اٹھانے کا تاکہ کراچی کے مسائل کی جڑوں تک پہنچ کر دیرپا حل فراہم کیا جا سکے۔
ان کا مؤقف تھا کہ شہر کے عوام روٹی کپڑا چھوڑ کر گٹر کا ڈھکن مانگنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور اگر اس حالت کا سدِ باب نہ کیا گیا تو اُن کے نزدیک اس کے ذمہ داران کو قانونی طور پر سخت سزا دی جانی چاہیے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News