
مشاہد حسین کی جانب سے پاک سعودی معاہدے پر تھنک ٹینک کی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں مسلم دنیا کا پہلا دفاعی معاہدہ پاکستان کے نئے مشرقِ وسطیٰ کردار کے لیے خوش آئند اور سعودی ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان کو مسلمان مصلح قرار دیا گیا ہے جو سعودی عرب کو بدل رہے ہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین سید نے آج پاکستان-سعودی عرب دفاعی معاہدے کی اہمیت اور مضمرات پر مبنی پہلی جامع تحقیقی رپورٹ جاری کی، جو ان کے زیرِ قیادت تھنک ٹینک، پاکستان-چین انسٹیٹیوٹ نے تیار کی ہے۔
رپورٹ کا عنوان ہے: “پاکستان اور سعودی عرب: مسلم دنیا کے تزویراتی سیکیورٹی شراکت دار” یہ 31 صفحات پر مشتمل رپورٹ مشاہد حسین سید کے تحریر کردہ دیباچے، کلیدی نکات، معاہدے کی اہمیت، مضمرات اور اس کے جغرافیائی و سیاسی پس منظر پر مشتمل ہے۔
رپورٹ میں پاکستان سعودی تعلقات سے متعلق اہم سفارتی واقعات، عسکری معاہدات، اور مشرقِ وسطیٰ میں مسلم ممالک کو فراہم کی جانے والی پاکستانی سیکیورٹی سپورٹ کا ریکارڈ بھی شامل ہے۔
سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ یہ تاریخی دفاعی معاہدہ دو اہم فیصلہ ساز شخصیات کا نتیجہ ہے: فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور سعودی ولی عہد و وزیراعظم محمد بن سلمان (ایم بی ایس)، جنہیں انہوں نے “مسلمان مصلح” قرار دیا جو سعودی عرب کو تیزی سے جدید خطوط پر استوار کر رہے ہیں، بالکل اسی طرح جیسے ڈینگ شیاو پنگ نے چین میں تبدیلیاں لائیں۔ مشاہد حسین نے کہا کہ ایم بی ایس کے پاس شاہ فیصل کے بعد سعودی عرب کے سب سے مؤثر رہنما بننے کی صلاحیت ہے۔
میڈیا بریفنگ کے دوران رپورٹ کے اجراء پر، سینیٹر مشاہد حسین نے معاہدے کی تین بنیادی وجوہات بیان کیں۔
پاکستان کا نیا عالمی تاثر اور اس کا بڑھتا ہوا سفارتی کردار، جو مئی 2025 میں بھارت پر فتح کے بعد سامنے آیا۔
مشرق وسطیٰ کے بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حالات، خصوصاً ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کی جارحیت، جو اب مسلم دنیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھی جا رہی ہے، اور امریکی سیکیورٹی ضمانتوں پر اعتماد کا خاتمہ۔
پاکستان کی عسکری کامیابی، جس میں اس نے مئی 2025 میں بھارتی جارحیت کا کامیابی سے دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ تاریخی و اہم اس لیے ہے کیونکہ پچاس برس بعد، پاکستان ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں بطور سیکیورٹی فراہم کرنے والا ملک کے طور پر ابھرا ہے، اور وہ یہ کردار مسلم دنیا کے اہم ترین ملک، سعودی عرب کے لیے ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ اکتوبر 1973 کی عرب-اسرائیل جنگ کے دوران، جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم تھے، پاکستانی فضائیہ کے پائلٹوں نے شام اور مصر کے دفاع میں اسرائیلی طیارے بھی مار گرائے تھے۔ پھر 1974 میں، شاہ فیصل کے تعاون سے، لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پہلی مرتبہ فلسطینیوں کی نمائندہ تنظیم پی ایل او کو تسلیم کیا گیا۔
معاہدے کے وقت کے حوالے سے مشاہد حسین نے تین اسباب بیان کیے۔
اسرائیلی جارحیت قطر کے خلاف
ایک پرامن اور امریکہ کا اتحادی ملک جہاں اسرائیل اور امریکہ نے حماس کے ساتھ خفیہ مذاکرات کیے تھے۔ قطر اسرائیلی حملے کا شکار ہونے والا چھٹا مسلم ملک ہے، اس سے پہلے فلسطین، ایران، لبنان، شام اور یمن نشانہ بن چکے ہیں۔
امریکہ کی ناکامی
قطر پر اسرائیلی حملہ روکنے میں امریکہ کی ناکامی سے مشرق وسطیٰ میں سیکیورٹی خلا پیدا ہوا، جہاں پاکستان ایک مؤثر متبادل کے طور پر ابھرا ہے۔ قطر میں امریکہ کا سب سے بڑا فوجی اڈہ ہونے کے باوجود امریکی تحفظ ناکام رہا۔ اسی طرح 2019 میں سعودی آئل تنصیبات پر حملے کو بھی امریکہ روک نہ سکا۔
پاکستان کی عسکری صلاحیت
بھارت کے خلاف مئی 2025 میں کامیابی نے پاکستان کو ایک طاقتور فوجی ملک کے طور پر منوایا، اور یہ بات سابق امریکی صدر ٹرمپ نے بھی تسلیم کی۔ پاکستان نے اسرائیلی ساختہ 80 سے زائد ہارپ ڈرونز مار گرائے، جس سے اس کی دفاعی اور جارحانہ صلاحیت کا اظہار ہوا۔
مشاہد حسین نے مزید کہا کہ مصر سے ایران تک مسلم ممالک نے پاکستان-سعودی معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے جو مسلم دنیا میں عسکری اتحاد کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔
ایرانی صدر مسعود پزشکیاں نے اسے “مسلم ممالک کے درمیان جامع علاقائی سیکیورٹی نظام کی جانب ایک قدم” قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ ابھرتے ہوئے ہند-اسرائیل گٹھ جوڑ کو روکنے میں مدد دے گا اور اس کے ذریعے 2023 میں جی-20 کانفرنس میں بائیڈن اور مودی کی جانب سے پیش کردہ آئی ایم ای سی (انڈیا-اسرائیل-مڈل ایسٹ اکنامک کوریڈور) کا منصوبہ دفن ہو چکا ہے۔ انہوں نے کہا: آئی ایم ای سی اب غزہ کی نسل کشی کے ملبے اور عرب کی ریتوں تلے دفن ہو چکا ہے۔
اختتام پر، سینیٹر مشاہد حسین نے کہا کہ اب پاکستان ایک فعال سفارتی و سیکیورٹی کردار ادا کر رہا ہے، بطور ایک اہم مسلم مڈل پاور۔ پاکستان اور سعودی عرب کی سیکیورٹی شراکت داری ایک نیا علاقائی سیکیورٹی ماڈل فراہم کرتی ہے، جہاں پاکستان کی فوجی طاقت اور سعودی عرب کی معاشی صلاحیت، مل کر کسی بھی جارحیت کے خلاف موثر دفاع فراہم کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی جنگ آزمودہ اور تربیت یافتہ افواج ہر قسم کی فوجی چیلنج سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
یہ پچھلے چند ماہ میں سینیٹر مشاہد حسین کی تیسری بڑی تحقیقاتی رپورٹ ہے، اس سے قبل انہوں نے پاکستان بھارت عسکری جھڑپ اور روانڈا کانگو امن معاہدے پر رپورٹیں جاری کیں تھی۔ مشاہد حسین نے کہا کہ اب سب سے بڑا چیلنج خیالات کی جنگ کا ہے، جس کے لیے پاکستان اور اس کے دوست مسلم ممالک کو تیار رہنا ہوگا، اور اس کے لیے تھنک ٹینکس کو ٹھوس تحقیقی رپورٹس سے جھوٹ اور غلط بیانی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News