اسلام آباد: سینیٹ نے 27ویں آئینی ترمیم میں مزید ترامیم کی منظوری دے دی۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، جس میں وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا اور مزید ترامیم پیش کرنے کی تحریک بھی دی۔
وفاقی وزیر قانون نے قانونی نکات واضح کرتے ہوئے کہا کہ آئینی فریم ورک کے تحت ترامیم اور فلالز کو دوبارہ سیٹ کیا گیا ہے اور آرٹیکل 6 کے تحت عدالتیں کسی فیصلے کو ویلیڈیٹ نہیں کر سکتیں۔
انہوں نے کہا کہ اس عمل سے مارشل لاء کے بعد جمہوریت کے سفر کو برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
ترمیم کی شق وار منظوری
سینیٹ میں 27 ویں آئینی ترمیم 56 شقوں پر مشتمل ہے اور ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل مکمل ہوگیا ہے۔ حکومت کے حق میں 64 ووٹ آئے جبکہ مخالفت میں چار ووٹ پڑے۔
27 ویں آئینی ترمیم کی مخالفت میں سینیٹرز کامران مرتضیٰ، عطاء الرحمان، عبدالشکور اور مولانا عبدالواسع شامل ہیں جبکہ اپوزیشن کے کچھ سینیٹرز نے حکومت کے حق میں ووٹ دیا۔
اپوزیشن کا احتجاج اور واک آؤٹ
اجلاس کے دوران اپوزیشن نے احتجاج کیا، بل کی کاپیاں پھاڑیں اور چیئرمین سینٹ کے ڈائس کے سامنے نعرے بازی کی۔
پی ٹی آئی کے ارکان نے ایوان سے واک آؤٹ کیا اور کچھ سینیٹرز نے ڈائس کے سامنے دھرنا بھی دیا۔
چیئرمین سینٹ نے احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے اجلاس میں دو منٹ کے لیے گھنٹیاں بجانے کی ہدایت دی، تاہم اس دوران سینیٹ میں ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل جاری رہا اور تین شقیں منظور کر لی گئیں۔
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی نشاندہی
نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے اجلاس کے دوران کہا کہ کچھ لوگ بھول گئے ہیں کہ جب سابقہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد ہوا تو قواعد کے خلاف قومی اسمبلی توڑ دی گئی، کوئی بھی غلط چیز درست نہیں ہو سکتی۔
انہوں نے بتایا کہ ستائیسویں آئینی ترمیم اس ایوان سے پاس ہو چکی ہیں اور آرٹیکل 6 میں کچھ غلطیاں رہ گئی تھیں۔ موجودہ ترمیم میں آٹھ ترامیم شامل ہیں جن میں سات چھوٹی چھوٹی غلطیاں تھیں۔
نائب وزیراعظم نے مزید کہا کہ “یہ آٹھ ترامیم وہ ہیں جو چھوٹی چھوٹی اصلاحات تھیں، کمیٹی میں جانے سے یہ غلطیاں درست ہو سکتی تھیں، اگر کوئی ممبر ضمیر کے مطابق ووٹ دیتا ہے تو اس کی قیمت ادا کی جاتی ہے، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے پر کارروائی ہوگی اور تحریری طور پر آگاہ کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز 27ویں آئینی ترمیم قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت سے منظور کی گئی، جس کے لیے حکومت کے پاس 234 ارکان موجود تھے جبکہ جے یو آئی ف نے مخالفت میں ووٹ دیا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
