فیس بک کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس رپورٹ کی تحقیقات کر رہا ہے کہ 267 ملین سے زیادہ صارفین کے نام اور فون نمبر پر مشتمل ایک آن لائن ڈیٹا بیس کیسے چوری ہوا۔
کمپیریٹیچ ویب سائٹ پے شائع کردہ بلاگ میں واضح کیا گیا کہ یہ ڈیٹا بیس گذشتہ ہفتے ایک آن لائن ہیکر کی جانب سے ڈاون لوڈ کیا گیا تھا جن کا تعلق بظاہر کسی کریمینل گروپ سے تھا۔
فیس بک حکام کا کہنا تھا کہ ہم اس مسئلے پر غور کررہے ہیں ، لیکن یقین کریں کہ یہ ممکنہ طور پر پچھلے کچھ سالوں میں لوگوں کی معلومات کے تحفظ کے لئے تبدیلیاں کرنے سے پہلے حاصل کی گئی معلومات ہیں۔
حکام کا مزید کہنا تھا کہ ڈیٹا بیس کو ہٹا دیا گیا ہے اور ہمیں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس کے تحت فیس بک اکاؤنٹس خطرے کی زد میں آئے ہوں’۔
اس ڈیٹا بیس میں فیس بک صارفین کی آئی ڈیز، ہر اکاؤنٹ سے منسلک اعداد وشمار، پروفائل میں استعمال ہونے والے نمبر، صارفین کی صنف اور ان کی موجودگی کا مقام بھی شامل تھا۔
اس میں سے 13 کروڑ 30 لاکھ اکاؤنٹس امریکا، 5 کروڑ اکاؤنٹس ویت نام، ایک کروڑ 80 لاکھ اکاؤنٹس برطانیہ سے تعلق رکھتے تھے۔افشاں ہونے والا سرور پاسورڈ سے محفوظ نہیں تھا جس کا مطلب ہر کوئی ڈیٹا بیس تک رسائی حاصل کرسکتا تھا۔
خیال رہے 2018 میں کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل میں جب ایک کمپنی نے کروڑوں صارفین تک رسائی کے لیے فیس بک کی پرائیویسی سیٹنگز میں نقص کا استعمال کیا تھا تو فیس بک نے اس فیچر کو ہی بند کردیا تھا جس کے ذریعے صارفین کو ان کے فون نمبر کے ذریعے تلاش کیا جاسکتا تھا۔
واضح رہے کہ کسی کے ہاتھ صارفین کا فون نمبر لگ جانے کی صورت میں اسپیم کالز، سم کا تبادلہ ہونے جیسے خطرات کا سامنا کرسکتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں ٹوئٹر کے چیف ایگزیکٹو آفیسر جیک ڈورسی کے ساتھ ہوا اور ہیکرز ان کا پاسورڈ تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
فیس بک نے صارفین کے نجی اعداد و شمار کو غلط انداز میں ڈالنے پر ریگولیٹر سے معاہدہ کرتے ہوئے رواں سال کے اوائل میں 5 ارب ڈالر جرمانہ ادا کیا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
