
سرزمین فلسطین پر قابض اسرائیلی فوج ہر سال 500 سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج ہر سال 500سے زائد فلسطینی بچوں کو گرفتار کرتی ہےجن میں کچھ بچوں کی عمریں 12سال کے لگ بھگ ہوتی ہیں ۔
مغربی کنارے سے گرفتار ہونے والے بچوں کی وکالت کرنے والی ادامیر آرگنائزیشن کی ایک وکیل سحر فرانسیس نےبرطانوی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تسلسل سے جاری ایسا عمل ہے جس میں بچوں کو بھی گرفتار کرلیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب کسی 14 سال کے بچے کی گرفتاری کے لیے رات گئے کسی گھر پر چھاپہ مارا جاتا ہے تو اس کا مقصد صرف لڑکے کے خلاف ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کے خلاف ایکشن لینا ہوتا ہے۔
اسرائیلی قید کی ایک انتہائی متنازع شکل کی ایڈمنسٹریٹو نظر بندی کی ہے۔
د وسری جانب اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ جن کو گرفتار کیا گیا ہے وہ قومی سلامتی کے لیے خطرے کا موجب ہیں اور اس وجہ سے ان سے متعلق اطلاعات خفیہ ہی رکھی جائیں گی۔
بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن رکن ممالک کو اس بات کا پابند بناتے ہیں کہ بچوں کو آخری آپشن کے طور پر ہی گرفتار کیا جا سکتا ہے۔اسرائیل نے بھی اس کنونشن پر دستخط کیے ہیں۔
قانون کے مطابق بچوں کو جیل میں عام قیدیوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا ہے، ان کو وکیل اور مترجم تک فوری رسائی دینے کے ساتھ ان کے ساتھ عزت سے پیش آنا ضروری ہے۔
16سالہ عھد تمیمی نے 2017 میں مبینہ طور پر ایک اسرائیلی فوجی کو تھپڑ مارا تھا۔ جس کے بعد انہیں جیل میں آٹھ مہینے گزارنے پڑے تھے۔
عھد نے یہ الزام عائد کیا ہے کہ اس کی گرفتاری کے بعد اس کے ساتھ برا سلوک کیا گیا۔
واضح رہے کہ اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کا نظام ہے۔ مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوجی قبضے کی بدولت فلسطینی بچوں پر اسرائیلی فوج کا فوجداری نظام لاگو کیا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیل مغربی کنارے سے گرفتار کیے گئے فلسطینی بچوں کو کوئی قانونی تحفظات فراہم نہیں کرتا جو اسرائیلی بچوں کو حاصل ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News