Advertisement
Advertisement
Advertisement

’کیا دہلی کی جامع مسجد پاکستان میں ہے؟‘

Now Reading:

’کیا دہلی کی جامع مسجد پاکستان میں ہے؟‘
’کیا دہلی کی جامع مسجد پاکستان میں ہے؟‘

بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر آزاد کی ضمانت سے متعلق دہلی کے تیس ہزاری کورٹ میں ایک اہم سماعت ہوئی جس میں عدالت نے دہلی پولس کو زبردست پھٹکار لگائی۔

انڈین دارالحکومت نئی دہلی کی جامع مسجد میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کرنے پر گرفتار کیے گئے بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکر آزاد کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت کے جج نے پولیس سے کہا ہے کہ ’احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے، آپ تو ایسا برتاؤ کر رہے ہیں جیسے جامع مسجد انڈیا نہیں بلکہ پاکستان میں ہو۔‘

دہلی پولس کے ذریعہ یہ دلیل پیش کیے جانے پر کہ مذہبی مقامات کے باہر احتجاجی مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا، عدالت نے کہا کہ ’’لوگ کہیں بھی پرامن مظاہرہ کر سکتے ہیں، اور جامع مسجد پاکستان میں نہیں ہے۔‘‘

 منگل کے روز ہوئی اس سماعت میں دہلی پولس کی جانب سے پیش وکیلوں کے دلائل پر سخت تبصرہ کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ ’’آپ تو اس طرح برتاؤ کر رہے ہیں جیسے جامع مسجد پاکستان میں ہو۔‘‘

انڈین ویب سائٹ دی وائر کے مطابق جج نے سرکاری وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’احتجاجی مظاہرے کرنے میں غلط کیا ہے، یہ ہر شہری کا آئینی حق ہے۔‘

Advertisement

 بھیم آرمی کے سربراہ کو دہلی پولیس نے 21 دسمبر کو اس وقت گرفتار کیا تھا جب وہ اپنے دیگر ساتھیوں اور مسلمانوں کے ساتھ مل کر جامع مسجد میں شہریت کے متنازع ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔

دراصل دہلی پولس کے وکیل نے مذہبی مقام کے باہر مظاہرہ کو لے کر سوال اٹھایا تھا جس پر تیس ہزاری کورٹ نے دہلی پولس کو ڈانٹ لگائی۔

۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’’لوگ کہیں بھی پرامن مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ جامع مسجد پاکستان میں نہیں ہے۔ ویسے پاکستان میں بھی پرامن مظاہرے ہوتے ہیں۔‘‘
دراصل یہ پورا معاملہ دریا گنج تشدد سے جڑا ہوا ہے جس کے بعد بھیم آرمی سربراہ چندر شیکھر آزاد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

معاملے کی سماعت کے دوران دہلی پولس کی طرف سے پیش سرکاری وکیل نے چندرشیکھر آزاد پر قابل اعتراض بیان دینے کا بھی الزام عائد کیا۔

اس الزام پر عدالت نے دہلی پولس سے سوال کیا کہ کس طرح کے بیانات دیئے گئے اور آپ نے اب تک کیا کارروائی کی؟ سوال کے جواب میں سرکاری وکیل نے عدالت سے کہا کہ ’’میں آپ کو وہ قانون دکھانا چاہتا ہوں جو مذہبی اداروں کے باہر مظاہرہ پر روک کی بات کرتا ہے۔‘‘

Advertisement

اس پر تیس ہزاری کورٹ کے جج نے دہلی پولس سے کہا کہ ’’کیا آپ کو لگتا ہے کہ ہماری دہلی پولس اتنی پسماندہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ریکارڈ نہیں ہے؟ چھوٹے معاملوں میں دہلی پولس نے ثبوت درج کیے ہیں لیکن اس واقعہ میں ایسا کیوں نہیں؟‘‘

اس سماعت کے دوران چندر شیکھر کی طرف سے پیش وکیل محمود پراچہ نے دہلی پولس کی جانب سے پیش کردہ دلائل کو مسترد کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ چندرشیکھر نے ایسا کوئی قابل اعتراض بیان نہیں دیا جس کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

محمود پراچہ نے کہا کہ ’’وہ (چندرشیکھر) صرف شہریت قانون اور این آر سی کو لے کر اپنا احتجاج درج کرا رہے تھے۔‘‘ دونوں طرف کی دلیلیں سننے کے بعد عدالت نے معاملے کی سماعت آئندہ بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی ہے

خیال رہے کہ چندر شیکر آزاد کی تنظیم بھیم آرمی انڈیا میں دلتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔

Advertisement
Advertisement
مزید پڑھیں

Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News


Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News


Advertisement
آرٹیکل کا اختتام
مزید پڑھیں
روس کا انسانیت پر احسانِ عظیم ، کینسر ویکسین تیار کرلی
عالمی برداری دوہرا معیار ترک کر کے اسرائیل کو جرائم پر سزا دے، قطری وزیراعظم
صدر زرداری کا چین کے ایئرکرافٹ کمپلیکس کا تاریخی دورہ
قطر پر حملہ: ٹرمپ ناخوش، مگر اسرائیل سے تعلقات مضبوط رہیں گے، امریکی وزیر خارجہ
روس پر پابندیاں: صدر ٹرمپ نے نیٹو ممالک کیلئے شرط رکھ دی
اسرائیل اور بھارت کی فنڈنگ پر لندن میں اسلام مخالف ریلی
Advertisement
توجہ کا مرکز میں پاکستان سے مقبول انٹرٹینمنٹ
Advertisement

اگلی خبر