بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت کے قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ہونے والے فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 20ہوگئی ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دلی میں ہنگامہ آرائی اور فسادات میں ہلاکتوں کی تعداد 20 ہوگئی ہے جبکہ 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔
مقامی حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں سے متعدد کی حالت نازک ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
نئی دہلی کی سڑکوں پر پولیس کی سرپرستی میں انتہا پسند ہندوؤں کا راج ہے۔ مسلح جتھوں نے مسلمانوں کی دکانیں اور گھر نذر آتش کردیے جبکہ متعدد مساجد کو بھی شہید کردیا گیا ہے۔
شہر میں شدید کشیدگی برقرار ہے جبکہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات ہے اور 4 مسلم اکثریتی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے۔
متاثرہ علاقوں میں دکانیں اور دفاتر بند ہیں، امتحانات ملتوی ہوگئے ہیں جبکہ خوف و ہراس کا عالم ہے۔ صورتحال اس قدر خراب ہے کہ زخمیوں کو اسپتال منتقل کرنے والی ایمبولینس پر بھی حملے ہورہے ہیں۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومت نے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کو نئی دہلی کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھنے کا ٹاسک سونپا ہے جس کے بعد اجیت دوول نے منگل کی رات جعفر آباد، سیلام پور اور دہلی کے متاثرہ شمال مشرقی علاقوں کا دورہ کیا۔
نئی دہلی : انتہا پسندوں نے مسجد پر حملہ کر دیا
نئی دہلی کی ہائیکورٹ نے شہر میں ہونے والے فسادات پر رات گئے ہنگامی سماعت کی اور پولیس کو شہریوں کا تحفظ یقینی بنانے کی ہدایت کی جبکہ عدالت نے فسادات میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر طبی امداد فراہم کرنے کی بھی ہدایت کی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق حکام نے شمال مشرقی دہلی کے علاقے جعفرآباد میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کو بھی ہٹا دیا ہے۔
اس مقام پر لوگوں کی بڑی تعداد نے کئی دن سے دھرنا دیا ہوا تھا اور اتوار کو یہاں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی تھیں جب شہریت کے قانون کے حامیوں کا ایک بڑا ہجوم وہاں جمع ہوا اور صورتحال کشیدہ ہوگئی تھی۔
نئی دہلی کی صورتحال پر امریکی ارکان کانگریس نے بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پرامیلا جیاپال نے کہا کہ ہندوستان میں مذہبی عدم رواداری کا مہلک اضافہ خوفناک ہے، ایسے قوانین کو فروغ نہیں دینا چاہئے جو مذہبی آزادی کو مجروح کریں۔
ایلن لوونتھل نے کہا کہ ہمیں ہندوستان میں انسانی حقوق کو لاحق خطرات پر آواز اٹھانی چاہئے۔ عالمی جمہوریت کو تفریق اور امتیازی سلوک کو برداشت نہیں کرنا چاہئے۔
یاد رہے کہ11 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ نے شہریت کا ایک متنازع قانون منظور کیا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلا دیش اور افغانستان سے بھارت جانے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی لیکن مسلمانوں کو نہیں۔
بھارت میں شہریت کے اس متنازع قانون کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور ہر مکتبہ فکر کے لوگ احتجاج میں شریک ہیں۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News
