امریکا نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایرانی حکومت بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) سے تعاون نہیں کرتی تو جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے اگلے ماہ ہونے والے مذاکرات متاثر ہوں گے۔
رواں ہفتے 35 رکنی عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس منعقد ہو رہا ہے جس میں ایرانی جوہری پروگرام مرکزی نکتہ ہوگا۔

سال 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ طے پایا تھا تاہم سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکا اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہو گیا تھا۔ صدر جو بائیڈن کے برسراقتدار آنے کے بعد اس جوہری معاہدے کی بحالی کی امید پیدا ہوئی تھی تاہم بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ ایران عالمی معائنہ کاروں کو بعض جوہری تنصیبات تک رسائی دینے سے گریز کر رہا ہے۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا کہنا ہے کہ ایران تیسا کاراج نامی جوہری تنصیب میں نگرانی کے کیمرے نصب کرنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے۔ آئی اے ای اے ان یورینیم ذرات سے متعلق بھی ایران سے وضاحت طلب کر رہی ہے جو ایک پرانی مگر غیراعلانیہ تنصیب سے ملے تھے۔ آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران عالمی معائنہ کاروں کے کام میں رکاوٹیں پیدا کر رہا ہے۔
امریکی حکومت نے آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرز کے نام بیان میں کہا ہے کہ اگر ایران فوری طور پر عدم تعاون کا رویہ ترک نہیں کرتا تو بورڈ کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ بحران کے نمٹنے کے لیے رواں برس کے اختتام سے قبل اپنا ایک غیرمعمولی اجلاس طلب کرے۔

امریکی بیان میں تیسا کاراج کے جوہری پلانٹ میں کیمروں کی تنصیب کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس پلانٹ میں یورینیم کی افزودگی کے لیے درکار سینٹری فیوجز کے آلات اور پرزے بنائے جاتے ہیں۔ اس پلانٹ پر رواں برس جون میں حملہ بھی کیا گیا تھا جس کا الزام ایران نے اپنے روایتی حریف اسرائیل پر عائد کیا تھا جبکہ اسرائیل کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا تھا۔
مزید پڑھیں
Catch all the Business News, Breaking News Event and Latest News Updates on The BOL News
Download The BOL News App to get the Daily News Update & Live News